پاکستان میں طالبان حکومت کے چار سفارت کار تعینات

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت نے پاکستان میں افغان سفارت خانے سمیت تینوں افغان قونصل خانوں میں سفارت کار تعینات کیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان چار میں سے تین سفارت کاروں نے اپنے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

اسلام آباد میں افغان سفارتخانے اور دو دیگر قونصل خانوں میں ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ تعیناتیاں ’فرسٹ سیکریٹریز‘ کی حیثیت سے ہوئی ہیں۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی معلومات اور افغان وزارت خارجہ کی جانب سے 20 اکتوبر کو جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق طالبان حکومت نے سردار احمد شکیب کو اسلام آباد میں افغان سفارتخانے جبکہ حافظ محب اللہ شاکر، گل حسن ابو محمد اور عباس خان محمد کو بالترتیب پشاور، کوئٹہ اور کراچی کے افغان قونصل خانوں میں فرسٹ سیکریٹریز کی حیثیت سے تعینات کیا ہے۔

افغان سفارت خانے اور قونصل خانوں میں ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ سفارت کار نہ صرف پاکستان پہنچ گئے ہیں بلکہ کم از کم تین نے اپنے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ لیکن اس نوٹیفیکشن کے بارے میں جب پاکستان اور طالبان حکومت کے وزارت خارجہ کے ترجمانوں سے پوچھا گیا تو دونوں نے بی بی سی کو کوئی جواب نہیں دیا۔

اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ترجمان ہادی بحر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سفارت خانے کو افغان وزارت خارجہ کی جانب سے یہ نوٹیفیکیشن موصول ہوا ہے لیکن اُن کے مطابق ’ان سفارت کاروں نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا ہے‘۔

طالبان سفارت کاروں کی تعیناتیاں کیسے ممکن ہوئیں؟

افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو تاحال پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن قانونی ماہرین کے مطابق اگر کوئی ملک کسی ملک کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا، تب بھی سفارتکاروں کو اُس ملک میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر قانون اور سابق اٹارنی جنرل احمر بلال صوفی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم نہ بھی کیا ہو تو بھی طالبان کی جانب سے یہ سفارت کار قبول کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اُن کے بقول ’انٹرنیشنل لا میں کسی حکومت کے لیے دو طریقے ہیں، ایک کسی بھی سٹیٹ یا حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کرنا ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر کسی کا ملک کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول ہے تو اس بنیاد پر اُن کے ساتھ ’انگیجمینٹ‘ ہوسکتی ہے۔‘

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار ایاز وزیر بھی احمر بلال صوفی سے متفق ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی حکومت کو تسلیم نہ بھی کیا ہو تو سفارت کار تعینات کرسکتے ہیں۔ ایاز وزیر کے مطابق کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا ’ایک طریقہ کار ’ریکگنیشن ڈی فیکٹو‘ (Recognition de facto) اور دوسرا ’ریکگنیشن ڈی جور‘ (Recognition de jure) ہے، اور ڈی فیکٹو ریکگنیشن طالبان حکومت کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک کر رہے ہیں۔‘

ایاز وزیر کے مطابق اگر پاکستان میں طالبان حکومت نے کچھ سفارتکار تعینات کیے ہیں تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

طالبان سفارت کاروں کے کام کا آغاز

اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ذرائع کے مطابق نئے آنے والے سفارتکار سردار احمد شکیب نے پیر 25 اکتوبر سے کام کا آغاز کیا اور اس دن سفارت خانے میں ایک چھوٹی سی تقریب بھی منعقد کی گئی تھی۔ کوئٹہ میں افغان قونصل خانے کے ذرائع کے مطابق وہاں منگل 26 اکتوبر کو گل حسن ابو محمد نے کام کا آغاز کیا اور وہاں بھی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

پشاور میں افغان قونصل خانے کے ذرائع کے مطابق وہاں نئے سفارت کار حافظ محب اللہ شاکر کے لیے تقریب کا اہتمام 27 آکتوبر کو کیا گیا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں افغان سفارت خانے اور پشاور، کوئٹہ اور کراچی کے افغان قونصل خانوں میں یہ سفارت کار ’فرسٹ سیکریٹریز‘ کی حیثیت میں تعینات ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں