ایران کا نومبر تک جوہری مذاکرات بحال کرنے کا اعلان

تہران (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی/ڈی ڈبلیو) ایرانی حکام نے کہا ہے کہ وہ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے ایک عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے۔ نئی ایرانی حکومت کی عدم دلچسپی کے رویے نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔

ایران میں اگست میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ ایرانی حکام نے بدھ کے روز کہا کہ وہ نومبر کے اواخر تک بات چیت دوبارہ شروع کریں گے۔

اس بات کا امکان ہے کہ سخت گیر اسلام پسند صدر ابراہیم رئیسی بات چیت میں اپنے پیش رو کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔

ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی نے جوہری مذاکرات کے رابطہ کاراور یورپی یونین عہدے دار اینرک مورا کے ساتھ ملاقات کے بعد ٹوئٹ پر کہا،”کامیاب مذاکرات کے لیے ضروری امور کے حوالے سے ہماری (اینرک مورا کے ساتھ) سنجیدہ اور تعمیری بات چیت رہی۔ ہم نومبرکے اواخر تک بات چیت دوبارہ شرو ع کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا،”بات چیت کے لیے حتمی تاریخ کا اعلان اگلے ہفتے کیا جائے گا۔”

ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور علی باقری نے جوہری معاہدے سے متعلق کیے گئے وعدوں سے متعلق مبینہ وعدہ خلافیوں اور پھر اس معاہدے سے امریکی علیحدگی نیز یورپی فریقین کی جانب سے اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ایران کیلئے پابندیوں کی مکمل اور موثر طریقے سے منسوخی، ایران اور دنیا سے تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا اور اس معاہدے سے ایرانی مفادات حاصل ہونا، اہم ہے۔

امریکا کا ردعمل

ایران کے اعلان کے جواب میں امریکا نے تہران سے ”نیک نیتی” کا مظاہرہ کرنے اورمعاہدہ کو جلد از جلد بحال کرنے کی اپیل کی۔

امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا،”یہ کھڑکی ہمیشہ نہیں کھلی رہے گی، ایران جوہری امور کے حوالے سے اشتعال انگیز اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جلد ہی بات چیت کے لیے ویانا آئیں گے اور نیک نیتی کے ساتھ بات چیت کریں گے۔”

مذاکرات کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟

اپریل میں دنیا کی چھ بڑی طاقتوں نے تہران کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے سلسلے میں بات چیت شروع کی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا اور ایران پر مزید پابندیاں عائد کردی تھیں۔

ویانا میں چھ دور کی بات چیت کے باوجود تہران اور واشنگٹن کے درمیان خلیج برقرار ہے۔ ابھی تک ان امور پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے کہ ایران کس حد تک جوہری حدود کو تسلیم کرنے کے لیے رضامند ہوگا اور امریکا اس پر عائد کون کون سی پابندیاں ختم کرے گا۔

ایران میں حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد سے ہی عالمی طاقتیں ایران سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کرتی رہی ہیں۔ عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ تہران کا جوہری پروگرام معاہدے کے حدود سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں