کابل میں ملٹری ہسپتال پر حملہ، 25 افراد ہلاک، درجنوں زخمی

کابل (ڈیلی اردو/روئٹرز/بی بی سی/ڈی پی اے) کابل میں ایک ملٹری ہسپتال کے داخلی دروازے کے نزدیک دو بم دھماکے اور شدید فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 25 افراد کی ہلاکت اور 50 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

ابتدائی طور پر دہشت گردی کے ان واقعات کے نتیجے میں ممکنہ ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔

منگل دو نومبر کو طالبان حکام اور عینی شاہدین کی طرف سے کہا گیا کہ کابل میں قائم افغانستان کے سب سے بڑے ملٹری ہسپتال کے نزدیک کم از کم دو زوردار دھماکوں کے بعد شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔

ابتدائی طور پر افغانستان کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان قاری سعید خوستی نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ دھماکے سردار محمد داؤد خان کے ہسپتال کے داخلی دروازے پر ہوئے۔ اس ہسپتال میں مریضوں کے لیے 400 بستروں کا انتظام ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنے ٹویٹ پیغام میں تحریر کیا،” سکیورٹی فورسز کو جائے وقوعہ اور ارد گرد کے علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے تاہم اب تک ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘‘

طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بی بی سی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ خراسان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے ہسپتال کے گیٹ پر پہلا دھماکہ کیا اور ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئے۔

بلاک کریمی کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے دولت اسلامیہ خراسان کے پانچ شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

دھماکوں کی شدت کا اندازہ اس علاقے کے رہائشیوں کی طرف سے شیئر کی گئی تصاویر سے ہوتا ہے، جن میں دور دور تک سیاہ بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دراصل کابل کے سابق سفارتی زون کے نزدیک کا ایک علاقہ ہیں۔

فوری طور پر ان دہشت گردانہ واقعات کی کسی نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی باختر نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس کے متعدد جنگجو ہسپتال میں داخل ہوئے اور ان کی سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

دہشت گردی کے واقعات کی فہرست بڑھتی ہوئی

ان تازہ ترین دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات ملک سے امریکی اور دیگر اتحادی افواج کے انخلا کے بعد سے ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے۔ دہشت گردی اور شورش خاص طور سے اُس وقت سے بڑھتی دکھائی دی جب طالبان نے گزشتہ اگست میں کابل کی مغربی حمایت یافتہ حکومت کا خاتمہ کرنے اور اپنی مکمل فتح کے دعوے شروع کیے۔

دوسری جانب افغانستان میں آئے دن ہونے والے دہشت گردانہ واقعات سے طالبان کے ملک میں سکیورٹی بحال کرنے کے دعوؤں کی مسلسل تردید ہو رہی ہے۔ 2017 ء میں بھی 400 بستروں پر مشتمل ہسپتال پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

عینی شاہد کا بیان

اس تازہ ترین دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہسپتال کا ایک ہیلتھ ورکر نے بتایا کہ اُسے پہلے ایک زوردار دھماکہ سنائی دیا جس کے چند منٹوں بعد فائرنگ کی آوازیں آئیں۔ قریب دس منٹ بعد ہی دوسرا اور پہلے سے زیادہ زوردار دھماکہ ہوا۔

اس ہیلتھ ورکر کا تاہم کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دھماکے اور فائرنگ ہسپتال کے کمپاؤنڈ کے اندر ہوئے یا نہیں؟

کابل کے علاقے وزیر اکبر خان کے اس ملٹری ہسپتال میں ہونے والے دھماکوں کے بعد ایک غیر سرکاری تنظیم یا این جی او نے کہا تھا کہ کم از کم 9 زخمی افراد کو ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔

ابتدائی طورپر طالبان حکومت کے ایک نائب ترجمان بلال کریمی نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ 400 بستروں پر مشتمل داؤد خان ملٹری ہسپتال کے داخلی دروازے کے نزدیک ایک دھماکہ ہوا ہے۔

دہشت گردی کے ان واقعات کی مزید تفصیلات ابھی سامنے آ رہی ہیں۔ تازہ ترین خبروں سے کم از کم 9 افراد کی ہلاکت اور 50 سے زائد کے زخمی ہونے کی

اپنا تبصرہ بھیجیں