بحرین: ایران کو جوہری ہتھیار بنانے نہیں دینگے، امریکی وزیر دفاع

منامہ (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی/اے ایف پی) امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بحرین منعقدہ سالانہ ’ماناما ڈائیلاگ‘ کے سلسلے کی تقریب میں اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھا جائے گا۔

امریکی وزیر دفاع نے ہفتے کے روز اپنے اس خطاب میں علاقائی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر اس وقت تشویش کا باعث بنے ہوئے چیدہ چیدہ مسائل کے بارے میں امریکی موقف کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

امریکا کے اعلیٰ دفاعی اہلکار کا کہنا تھا، ‘ تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے گا اور مشرق وسطیٰ میں خود کؑش ڈرون کے ‘ خطرناک استعمال‘ کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔‘‘ لائیڈ آسٹن کی طرف سے ان عزائم کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیے گیا جب ایران کے ساتھ عالمی ایٹمی معاہدے کے تعطل شدہ مذاکرات کا بحال نہ ہو سکنا باعث تشویش بنتا جا رہا ہے۔

خلیجی عرب کو یقین دہانی

بحرین میں سالانہ ماناما ڈائیلاگ کی تقریب میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے بیانات کو امریکا کے اپنے عرب خلیجی اتحادیوں کو یقین دہانی کے مقصد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو غیر معمولی اہمیت کا حامل مقصد ہے، خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس نے ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے کے عوض اُس پر لگی اقتصادی پابندیاں اُٹھانا کی بات کی ہے۔

ایک طرف، ایران اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ معاملات ہیں تو دوسری جانب واشنگٹن انتظامیہ اپنی توجہ چین کے ساتھ امریکا کے مقابلے کی دوڑ پر مبذول کیے ہوئے ہے۔ اس سب کے درمیان لائیڈ آسٹن نے ہفتے کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کو دوبارہ اس امر کا یقین دلانے کو اہم جانا کہ واشنگٹن ماضی کی طرح اب بھی مشرق وسطیٰ کے خطے کے مقاصد و مفادات کے ساتھ مخلص اور پرُ عزم ہے۔

آسٹن کی تقریر کے اثرات

اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آسٹن کی تقریر کس حد تک مؤثر ثابت ہو گی کیونکہ انہوں نے اپنی تقریر میں مشرق وسطیٰ کو نہ تو ہتھیاروں کی فروخت کی نہ ہی مزید فوجی تعیناتی کے موضوع کو چھیڑا۔

عرب خلیجی ریاستیں فوجی اعتبار سے امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ ان ریاستوں کی طرف سے خاص طور سے افغانستان سے فوجی انخلا کی تکمیل کے بعد سے امریکی صدر جوبائیڈن کی مشرق وسطیٰ کے خطے کی طرف توجہ کے بارے میں غیر یقینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عرب خلیجی ریاستیں عالمی طاقتوں کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں پر نظریں جمائے ہوئی ہیں۔

آسٹن کے ماناما میں دیے گئے بیانات سے قبل خلیجی شیخوں نے امریکا کے افراتفری اور انتہائی جلد بازی میں افغانستان سے فوجی انخلا کا جائزہ لیتے رہے ہیں اور ان کی طرف سے اس بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے کہ امریکا مستقبل میں اس خطے میں اپنی دفاعی سرگرمیاں کس حد تک جاری رکھے گا۔

چین اور روس سے خطرات

خلیجی ممالک کے دفاعی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ چین اور روس کی جانب سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی اس خطے سے وابستگی کو ایک محور ایک مرکز کے طور پر نہایت اہم سمجھتے ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ امریکا کے اب بھی مشرق وسطیٰ کے خطے میں بہت سے فوجی اڈے موجود ہیں، بائیڈن انتظامیہ اس بات کا عندیہ دے چُکی ہے کہ امریکی فوجی حکام مشرق وسطیٰ سے باہر دیگر علاقوں میں ایک وسیع فوجی رد و بدل کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا،” ہم ممکنہ طور پر جر کچھ کر سکتے ہیں اُس میں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھی اپنا کتنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور ہم تیزی سے اس میں کس طرح شامل ہو سکتے ہیں۔‘‘ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے بقول، ” ہمارے دوست اور دشمن دونوں جانتے ہیں کہ امریکا اپنے انتخاب اور وقت کے تعین کی مناسبت سے زبردست اور غالب فورسز تعینات کر سکتا ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں