افغانستان: طالبان نے خواتین فنکاروں کے ٹی وی ڈراموں میں کام پر پابندی لگا دی

کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے چند نئے اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جن کے تحت خواتین پر ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

انھی قواعد کے مطابق خواتین صحافی اور ٹی وی اینکرز کو پابند کیا گیا ہے کہ ٹی وی پر آنے سے قبل انھیں سر ڈھانپنا ہو گا۔

افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے نافذ کیے گئے چند قواعد مکمل طور پر واضح نہیں ہیں اور ان کی تشریح (وضاحت) کی ضرورت ہے۔

رواں برس اگست میں جب طالبان افغانستان میں برسراقتدار آئے تھے تو کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ وہ آہستہ آہستہ ملک میں سخت نوعیت کی پابندیاں لاگو کریں گے خاص کر خواتین کے حوالے سے۔

شدت پسند اسلامی گروپ، طالبان، نے امریکی اور اتحادی افواج کے جانے کے بعد ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور خواتین اور بچیوں کے سکول جانے سے پابندی عائد کر دی تھی۔

نوے کی دہائی میں ان کے پہلے دور حکومت میں بھی خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندی تھی۔

طالبان کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات کیا ہیں؟

افغانستان میں ٹی وی چینلز کو حکومت کی جانب سے آٹھ ضوابط پر مبنی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

ان میں شریعت یعنی اسلامی قوانین اور افغان اقدار کے منافی فلموں پر پابندی اور مردوں کے برہنہ جسم کی نمائش پر پابندی ہے۔

اس کے علاوہ مزاح کے ایسے پروگرام جس میں مذہب کی تضحیک اڑائی جائے یا جو کسی کو ناگوار گزریں، اُن پر بھی پابندی ہو گی۔

طالبان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسی غیر ملکی فلمیں جو غیر ملکی ثقافتی اقدار کا پرچار کریں، اُن کی نمائش بھی نہیں ہو سکتی۔

افغانستان کے ٹی وی چینلز پر عمومی طور پر غیر ملکی ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں جن میں خواتین مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔

افغانستان میں صحافیوں کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم کے رکن، حجت اللہ مجددی نے کہا کہ طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے اقدامات ’غیر متوقع‘ تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چند احکامات پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور اگر ان پر عمل درآمد کیا جائے تو اس چینل کے پاس بند کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہو گا۔

طالبان کی جانب سے خواتین اور بچیوں کو سکول جانے سے روکنے کے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی نصف آبادی کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔

کابل شہر کے مئیر نے بھی بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والی خواتین ملازمین کو کہا ہے کہ اگر ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ مرد نہیں کر سکتے، تو وہ کام پر آئیں ورنہ گھر پر رہیں۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کا خواتین پر کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے اقدامات محض ‘عارضی’ ہیں اور اس کا مقصد صرف یہ ہے تمام کام کرنے والے ادارے اور تعلیمی اداروں میں خواتین کے لیے ماحول کو ‘محفوظ’ بنایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں