طالبان کو تسلیم کرنے کیلئے روس اور چین سے زیادہ پاکستان متحرک ہے، امریکا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے کہا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق روس اور چین کے کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ البتہ پاکستان اس معاملے میں زیادہ متحرک ہے۔

وائس آف امریکہ کی نائیکی چنگ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں تھامس ویسٹ نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں انسانی بحران پر بہت زیادہ فکر مند ہے۔

افغانستان میں انسانی المیے کے پیشِ نظر طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان کے منجمد اثاثوں تک رسائی کے سوال پر تھامس ویسٹ کا کہنا تھا کہ اگست کے وسط میں طالبان کے آنے سے قبل بھی بدقسمتی سے افغانستان خوفناک انسانی بحران کا شکار تھا۔

اُن کے بقول اس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی امداد میں مسلسل کمی ہے جس پر گزشتہ 20 برس سے افغان معیشت انحصار کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ اگست کے وسط میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکی حکومت نے امریکی بینکوں میں افغان سینٹرل بینک کے لگ بھگ 10 ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔

طالبان کا اب امریکہ سے مطالبہ ہے کہ افغانستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ اثاثے فوری بحال کیے جائیں۔

تھامس ویسٹ کا مزید کہنا تھا کہ سابق افغان حکومت کے 75 فی صد اخراجات غیر ملکی امداد کے ذریعے پورے ہوتے تھے جب کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 40 فی صد انحصار غیر ملکی فنڈنگ پر تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے ساتھ رابطوں کے دوران پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر وہ طاقت کے ذریعے اقتدار میں آئے تو یہ امداد ختم ہو جائے گی اور اب ایسا ہی ہوا ہے۔

‘انسانی بحران میں کمی کی کوشش کر رہے ہیں’

انٹرویو کے دوران جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ منجمد اثاثوں کو افغانستان میں بگڑتی انسانی صورتِ حال سے جوڑنا مناسب ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ امریکہ اس انسانی بحران کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کے لیے ڈالر میں رقم دینے والا سب سے بڑا ڈونر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس سال افغانستان کو لگ بھگ 47 کروڑ 40 لاکھ ڈالر فراہم کر رہے ہیں جب کہ امریکہ اس معاملے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں بشمول جرمنی، برطانیہ، ناروے سمیت دیگر ممالک کے اقدامات کی بھی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ بھی اس ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

طالبان کی جانب سے ان منجمد اثاثوں کو بحال کرنے کی اپیل کے سوال پر ویسٹ کا کہنا تھا کہ ان منجمد اثاثوں کا تعلق کسی انتظامی فیصلے سے نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تاثر ہے جسے میڈیا میں بھی خوب اُچھالا گیا۔

ویسٹ نے وضاحت کی کہ ان منجمد اثاثوں کی وجہ قانونی پیچیدگیاں اور عدالتی کارروائی ہے جس کے باعث مخصوص بینکوں میں موجود رقم کسی اور جگہ منتقل نہیں ہو پا رہی۔

اُن کا کہنا تھا کہ صرف امریکہ میں موجود اثاثوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے بلکہ امریکہ سے باہر بھی افغانستان کے ایسے دو ارب ڈالرز موجود ہیں جو انہی وجوہات کی بنا پر افغانستان کے حوالے نہیں ہو سکتے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ بدھ کو امریکی کانگریس کو لکھے گئے کھلے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ کے قانون ساز افغانستان کے 9.5 ارب ڈالرز کے منجمد اثاثے جاری کریں اور کابل پر عائد پابندیاں بھی ہٹائی جائیں۔

خط میں مزید کہا گیا تھا کہ ان پابندیوں اور بین الاقوامی امداد کی معطلی نے بڑی حد تک امداد پر منحصر افغان معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔​

‘افغانستان میں خطے کے ممالک کا اہم کردار دیکھتے ہیں’

انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنے چینی، روسی اور پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ‘ٹرائیکا پلس’ اجلاس میں شرکت کی۔ آپ پاکستان کے دورے پر آئے طالبان کے وزیرِ خارجہ سے بھی ملے۔ آپ کی اس پر کیا رائے ہے اور چین اور روس افغانستان کو مستحکم کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

اس سوال پر تھامس ویسٹ نے کہا کہ امریکہ اس طرح کے فارمیٹ کی حمایت کرتا ہے۔ یہ ایسا فارمیٹ ہے جو مشرق اور مغرب میں پل کا کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں استحکام کے لیے خطے کے ممالک بشمول روس، چین، پاکستان کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں۔

ویسٹ کا کہنا تھا کہ ان ملاقاتوں کے بعد ہم ایک مشترکہ اعلامیے پر متفق ہوئے اور انہیں خوشی ہے کہ روس، چین اور پاکستان نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جس کا امریکہ نے کیا کہ ”بنیادی اور مزید جامع حکومت کی طرف بڑھا جائے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انسانی مدد کے کارکنوں کو ترسیل کے تمام پہلوؤں تک رسائی دی جائے۔”

ان کے بقول یہ ایک اچھی ملاقات تھی جہاں ہم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا اور وہ پاکستان کی جانب سے اجلاس کی میزبانی کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے طالبان سے ایک جامع حکومت کے قیام کے ساتھ تمام بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں سے رابطے ختم کرنے اور افغانستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی روک تھام کے مطالبات کیے تھے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ اگر چین، روس اور پاکستان باضابطہ طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھتے ہیں تو کیا امریکہ بھی ایسا کرے گا؟ اور طالبان کو تسلیم کرنے لیے امریکہ کی کیا پیشگی شرائط ہیں؟ جواب میں ویسٹ نے کہا کہ طالبان کو خاص طور پر تسلیم کرنے کے لیے روس اور چین کے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے۔

ان کے خیال میں پاکستانی اس معاملے میں زیادہ متحرک ہیں اور ان کا جھکاؤ طالبان کو تسلیم کرنے کی طرف نظر آرہا ہے۔ البتہ جہاں تک آپ کے سوال کا جواب ہے تو یہ ایک فرضی بات ہے اور اس کا جواب نہ میں ہے۔

‘پاکستانیوں کو امریکہ کی افغان پالیسی پر تحفظات ہیں’

پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت اور اس سے پاک امریکہ تعلقات پر اثر سے متعلق سوال کے جواب میں تھامس ویسٹ کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے معاملے پر پاکستانی حکام سے ہر سطح پر بات چیت جاری رکھیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان لسانی، ثقافتی تعلقات کے علاوہ سرحد پار برادریوں کے درمیان مضبوط روابط ہیں جس کا پاکستان فائدہ اُٹھاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکہ کی پالیسی پر تحفظات ہیں اور ہمیں طویل عرصے سے افغانستان سے متعلق پاکستان کی پالیسی پر تحفظات ہیں۔ ان کے خیال میں ان تحفظات کو دور کرنے کا راستہ دو طرفہ بات چیت ہے اور ہم رابطوں کے ذرائع کو بند نہیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہافغانستان کے بارے میں پاکستان اور امریکہ کی ترجیحات میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ظفر نواز جسپال نے وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد جلیل اختر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہونا چاہیے۔ ایک جامع حکومت قائم ہونی چاہیے اور دہشت گردی کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہونے چاہیں اور نی ہی افغانستان میں کوئی انسانی بحران پیدا ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھتے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں امریکہ میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ روابط اور ان کی حکومت تسلیم کیے بغیر افغانستان میں مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے لیے اس کا امن و استحکام اہم ہے۔ عالمی برادری بھی اس تگ و دو میں ہے کہ افغانستان میں جلد امن و استحکام ہو۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سے بھی بین الاقوامی برادری کی توقع ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور ایک جامع حکومت کی طرف پیش رفت کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا احترام کریں۔ جب کہ لڑکیوں کی تدریس کا سلسلہ جلد بحال کیا جائے۔

اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری طالبان کی نہیں بلکہ عام افغان شہریوں کی مدد کرنا چاہتی ہے اور اگر طالبان بھی اس معاملے میں تعاون کرتے ہیں تو صورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے۔

‘طالبان کے انسدادِ دہشت گردی کے وعدے امریکہ کے لیے سب سے اہم ہیں’

تھامس ویسٹ کا انسدادِ دہشت گردی بشمول داعش خراساں کے خلاف کارروائی اور چین اور روس کے کردار سے متعلق سوال پر کہنا تھا کہ صدر بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کو برقرار رکھے گا کہ افغانستان پھر کبھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرے کی جگہ نہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ نو اور 10 اکتوبر کو طالبان کے ساتھ یہاں تک کہ اگست میں انخلا کے عمل کے دوران بھی ہماری گفتگو کا محور یہی تھا۔ طالبان کے انسدادِ دہشت گردی کے وعدوں کی تکمیل ہمارے لیے ایک بنیادی مسئلہ ہے اور ایسا ہی رہے گا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک روس اور چین کا معاملہ ہے۔ ان کے خیال میں وہ ان کی اس تشویش میں شریک ہیں کہ دہشت گرد ان کے ممالک اور پڑوسیوں کے لیے خطرہ ہوں گے۔

ویسٹ سے جب پوچھا گیا کہ افغانستان سے انخلا کرنے والے ان افراد جو جانچ کے عمل سے نہیں گزرے اور اس وقت یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں پر ہیں ان کے لیے امریکہ کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ کیا امریکہ انہیں دوبارہ افغانستان بھیجنے پر غور کر رہا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ انخلا کا عمل محکمۂ خارجہ میں ان کے کردار اور ذمہ داریوں کا بڑا حصہ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کے لیے امریکی پالیسی اور طالبان اور خطے کے ساتھ امریکہ رابطوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

‘طالبان کے نئے میڈیا قواعد پر تشویش ہے’

دورانِ انٹرویو افغانستان میں نئی میڈیا پابندیوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ “اگر میں وسیع پیمانے پر بات کروں تو ہمیں طالبان کی جانب سے جاری کردہ نئے میڈیا ضابطوں پر تشویش ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں میڈیا میں خواتین کی نمائندگی ایک آزاد معاشرے کا اہم اور صحت مندانہ حصہ ہے۔ لہٰذا ہم افغانستان میں صحافت میں خواتین کی متحرک شمولیت کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

اس معاملے پر طالبان کے وزیرِ خارجہ سے متعلق گفتگو کے سوال پر ​ویسٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے نو اور 10 اکتوبر کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران میڈیا اور پریس کی آزادی پر تبادلۂ خیال کیا تھا اور ان کے خیال میں “ہماری اگلی ملاقات میں بھی میڈیا اور پریس کی آزادی اہم معاملہ ہو گی۔”

حال ہی میں افغانستان میں طالبان نے ٹی وی چینلز کو ان ڈراموں کی نشریات روکنے کا حکم دیا ہے جن میں خواتین فن کار کوئی کردار نبھا رہی ہیں۔

اس کے علاوہ طالبان نے خواتین صحافیوں کے لیے حجاب پہننے کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ طالبان کی ان نئی پابندیوں پر اُنہیں تنقید کا بھی سامنا ہے۔

‘ذمہ دار ریاست یرغمالیوں کو نہیں رکھتی’​

افغانستان میں ایک امریکی شہری مارک فریرکس کو یرغمال بنانے سے متعلق سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ مارک کی رہائی طالبان کے ساتھ گفتگو میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ ایک ایسا اہم مسئلہ جو ہر ورچوئل ملاقات میں اٹھایا گیا۔

ان کے بقول ذمہ دار ریاستیں یرغمالیوں کو نہیں رکھتی۔ یہ حقیقت ہے اور اگر طالبان آگے ذمہ دار ریاست کی طرح برتاؤ رکھنا چاہتے ہیں ہیں تو ہم مارک کی جلد از جلد واپسی دیکھیں گے۔

یاد رہے کہ امریکی ریاست الی نوائے سے تعلق رکھنے والے 58 سالہ سابق نیوی اہل کار اور سول انجینئر مارک فریرکس گزشتہ برس افغان دارالحکومت کابل سے لاپتا ہو گئے تھے۔

دریں اثنا امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو گا۔

منگل کو ایک بیان میں پرائس کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ کریں گے۔

نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات دو ہفتے تک جاری رہیں گے جن میں انسدادِ دہشت گردی، افغانستان کی معاشی صورتِ حال سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں