اسلام آباد: سینئر صحافی ضیاالدین انتقال کر گئے

اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینئر صحافی محمد ضیاالدین 83 برس کی عمر میں پیر کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے ہیں۔ انہوں نے لگ بھگ 60 برس صحافت کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔

محمد ضیاالدین پاکستان کے کئی نامور انگریزی اخبارات سے وابستہ رہے۔ وہ کئی اہم عہدوں پر خدمات بھی انجام دے چکے تھے۔

بطورِ صحافی وہ رپورٹر، ایڈیٹر اور تجزیہ کار رہے اور اپنے ساٹھ سالہ صحافتی کریئر کے دوران سیاست، اقتصادیات اور دیگر اہم معاملات پر لکھتے رہے۔

محمد ضیاالدین 1938 میں ہندوستان کے شہر مدراس میں پیدا ہوئے جسے اب چنائی کہا جاتا ہے۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان 1952 میں مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ منتقل ہوا جہاں وہ کچھ عرصہ مقیم رہے اور پھر وہ خاندان سمیت 1960 میں مغربی پاکستان کے شہر کراچی میں آکر بس گئے۔

ضیاالدین نے کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان کی ایک نجی نیوز ایجنسی پاکستان پریس ایجنسی (پی پی آئی) سے وابستہ ہو گئے۔

ضیاالدین پاکستان کے بڑے انگریزی اخبارات ڈان، دی نیوز، دی مسلم اور ایکسپریس ٹربیون سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ وہ فری لانس جرنلسٹ کی حیثیت سے بھی لکھتے رہے۔

ضیا الدین کے انتقال پر ملک کی صحافت اور میڈیا برادری کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا گیا جس میں مختلف شخصیات نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

ڈان نیوز کے شو ’ذرا ہٹ کے‘ کے میزبان مبشر زیدی نے ضیاالدین کو ’پاکستانی صحافت کا آئیکن‘ قرار دیا۔

ناصر جمال نے کہا کہ ’وہ بہترین اور قد آور صحافیوں میں سے ایک اور پاکستان میں صحافت کے علمبرداروں میں سے ایک تھے، ہم جیسے جونیئرز کے لیے وہ ہمیشہ بہت رہے ہیں‘۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انہیں انتہائی قابل اور آزاد صحافیوں میں سے ایک قرار دیا۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ ضیاالدین ان چند صحافیوں میں سے ایک تھے جن کا عملی تجربہ نصف صدی پر محیط ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے ایک دفعہ اخبارات کے ایڈیٹرز کے ساتھ میٹنگ میں کہا کہ کارگل آپریشن سے کشمیر آزاد ہو سکتا ہے تو ضیا الدین صاحب نے اسی وقت جنرل پرویز مشرف کو مخاطب کر کے کہا کہ ’جنرل صاحب آپ پاکستانی عوام کو تو فتح کر سکتے ہیں، کشمیر کو فتح نہیں کر سکتے۔’

دی نیوز کی اوپ-ایڈ ایڈیٹر زیب النسا برکی نے ٹوئٹ کیا کہ وہ باوقار اور نرم مزاج شخص تھے جو اپنے پیشے میں نہایت مہارت رکھتے تھے۔

دریں اثنا، سیاسی تجزیہ کار و سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ ضیاالدین نہ صرف ایک ’بہترین صحافی‘ تھے بلکہ ’ایک مشہور شخصیت اور تمام نوجوان صحافیوں کے لیے رہنما‘ تھے۔

ڈیجیٹل رائٹس کی رضاکار اور انسانی حقوق کی وکیل نگہت داد نے بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ صحافی برادری میں نہایت دانشور شخصیت تھے اور پیشے اور اس سے آگے بہت سے لوگوں کے لیے ایک رول ماڈل تھے۔

‏ریحام خان نے بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صحافت میں 45 سال امروں کے خلاف آواز بلند کرنے والے انگریزی ادب میں استادوں کے استاد، صحافت، اصول، اخلاقیات کا مینارہ نور ضیا الدین صاحب آج دنیا چھوڑ گئے۔ ان کی صحافت، سرمایہ حیات اور جاوداں رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں