افغانستان: پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے سابقہ اہلکار قتل یا لاپتہ ہو رہے ہیں، ہیومن رائٹس واچ

کابل (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) طالبان حکومت کے دور میں سابقہ حکومت کے پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں یا ان کے جبری لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم (ہیومن رائٹس واچ) ایچ آر ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کی ہے۔

انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی انٹرنیشنل تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے افغانستان کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ منگل تیس نومبر کو شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں سابقہ دورِ حکومت کے پولیس اور سکیورٹی سے تعلق رکھنے والے فارغ شدہ اہلکاروں کے قتل یا ان کے جبری طور پر لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ہلاکتیں عام معافی کے اعلان کے باوجود رونما ہو رہی ہیں۔

پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں یا گمشدگیاں

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت کے مسلح کارندوں کے ہاتھوں ایک سو سے زائد ایسے افراد کو ہلاک یا انہیں جبری طور پر ان کے ٹھکانوں سے اٹھایا گیا اور ایسے افراد ابھی تک بظاہر لاپتہ ہیں۔

اس رپورٹ میں ان کارروائیوں کو سابقہ حکومت میں فوج اور پولیس کی اقدامات کے جواب میں انتقامی سلسلہ قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ طالبان عسکریت پسند حکومتی ریکارڈ کی مدد سے ایسے افراد کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے عسکریت پسندوں کو ہدف بنایا تھا۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے خود کو سرنڈر کر دیا اور انہیں عام معافی کا حکومتی خط بھی دیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق مقامی طالبان کمانڈروں نے اپنی فہرستیں بنائی ہیں اور ان میں درج افراد کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ناقابلِ معافی اقدامات کے مرتکب ہیں۔

خوف و ہراس کی فضا

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ طالبان کے مسلح کارکنوں کی ان وارداتوں سے ہونے والی ہلاکتوں نے ملک کے کئی حصوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے سبھی افراد اعلانیہ طور پر سابقہ حکومت سے لاتعلقی بیان کرتے پھرتے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ موجودہ حکومت کے کارکنوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر رکھیں کیونکہ اسی میں انہی کی زندگیاں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

طالبان کا نشانہ

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان کے عام معافی کے وعدے نے مقامی کمانڈروں کو انتقامی کارروائیوں سے نہیں رو کا اور وہ فوج، خفیہ اداروں اور پولیس کے اہلکاروں کو بتدریج نشانہ بنا رہے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے ستائیس نومبر کو ایک عوامی جلسے میں لوگوں سے تقریر کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں کی ممکنہ رپورٹوں کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سابقہ اہلکار غلط کام کرے گا تو اس کو جرم کے مطابق سزا دی جائے گی۔

دولت اسلامیہ کے کارکن بھی نشانے پر

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ننگرہار صوبے میں دہشت گرد جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

اسی صوبے میں گزشتہ منگل کو طالبان عسکریت پسندوں نے دولت اسلامیہ کے جہادیوں کے ایک ٹھکانے پر دھاوا بولا تھا اور اس کے بعد اطراف میں شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ جھڑپ قریب آٹھ گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی۔

ننگرہار کے خفیہ ادارے کے سربراہ طاہر مبریز کا کہنا ہے کہ اس فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک مرد اور ایک عورت نے اپنی بارودی جیکٹوں کو اڑا دیا تھا اور دو مشتبہ جہادیوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں