ہزاروں پاکستانی شہریوں کی بھارتی شہریت کیلئے درخواستیں

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران چھ لاکھ سے زائد شہریوں نے بھارت کی شہریت ترک کی اور دوسرے ملکوں کی شہریت اختیار کی ہے۔

وزیرِ مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے کیرالہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ہیبی ایڈن کے ایک سوال کے تحریری جواب میں رواں ہفتے منگل کے روز لوک سبھا میں یہ انکشاف کیا۔

ان کے مطابق 2017 سے لے کر اب تک چھ لاکھ سات ہزار چھ سو 50 افراد نے بھارت کی شہریت ترکی کی ہے۔ دوسری طرف 2016 سے 2020 کے درمیان 4177 افراد کو بھارت کی شہریت دی گئی۔

اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ سال 2019 میں ایک لاکھ چوالیس ہزار افراد نے بھارتی شہریت ترک کی۔ جب کہ سال 2020 میں 85 ہزار 248 افراد نے بھارت کی شہریت سے دست برداری اختیار کی۔

شہریت ترک کرنے کے رجحان میں اضافہ

نتیانند رائے کا کہنا تھا کہ غیر ملکی دوروں کے سلسلے میں عائد پابندیوں کے نرم کیے جانے کی وجہ سے 2021 میں بھارتی شہریت ترک کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 10 ستمبر تک ایک لاکھ گیارہ ہزار 287 افراد نے بھارت کی شہریت چھوڑی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں ایک ہزار چھ افراد، 2017 میں 817، 2018 میں 628، 2019 میں 987 اور 2020 میں 639 افراد کو شہریت دی گئی۔

یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ 2019 میں سب سے زیادہ چار ہزار 222 افراد نے بھارتی شہریت کے لیے درخواست دی جب کہ 2020 میں اس میں کمی آئی اور صرف ایک ہزار 546 افراد نے شہریت کی درخواست دی۔

سب سے زیادہ درخواستیں پاکستانی شہریوں کی ہیں

حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارتی شہریت کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں پاکستان سے آئیں۔

سال 2016 سے 2020 کے درمیان سات ہزار سات 82 پاکستانی شہریوں نے بھارتی شہریت کے لیے درخواست دی۔

حکومت کے مطابق 2019 میں سب سے زیادہ تین ہزار 95 درخواستیں پاکستانی شہریوں سے موصول ہوئیں۔

رپورٹس کے مطابق یکم جنوری 2017 سے رواں سال کے تین اگست تک دو ہزار 63 پاکستانیوں کو بھارتی شہریت دی گئی۔

نتیانند رائے نے یہ بھی بتایا کہ شہریت کا ترمیمی قانون سی اے اے 12 دسمبر 2019 کو قابل عمل ہوا اس کے ضوابط ابھی وضع نہیں کیے جا سکے ہیں اس لیے 1955 کے شہریت قانون کے تحت شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواستیں مانگی گئیں۔

وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیان میں شہریت چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ تاہم اس سے قبل وزارت کے ذرائع نے بتایا تھا کہ تعلیم اور روزگار ترک سکونت کی کلیدی وجوہات ہیں۔

بھارت میں دوہری شہریت کی انتظام نہیں ہے۔ البتہ حکومت غیر ممالک میں رہنے والے بھارتی باشندوں کو اوور سیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کارڈ فراہم کرتی ہے جس کے تحت کارڈ ہولڈرز کو کئی سہولتیں ملتی ہیں۔

یاد رہے کہ شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی وجہ سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، پارسی، جین، عیسائی اور بودھ برادری کے لوگوں کو شہریت دی جائے گی۔

اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جو لوگ 2014 سے قبل آچکے ہیں انھیں اس قانون کے تحت شہریت ملے گی۔

حکومت کی جانب سے منظور کردہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں بالخصوص مسلمانوں کی جانب سے مہینوں تک شدید احتجاج کیا گیا تھا جو کرونا وبا کی وجہ سے ختم کر دیا گیا۔

شہریت ترک کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟

رپورٹس کے مطابق پاسپورٹس کی عالمی درجہ بندی میں بھارتی پاسپورٹ بہت نیچے یعنی 69 ویں نمبر پر ہے جس کی وجہ سے بھارتی پاسپورٹ ہولڈرز کو مختلف ملکوں کے سفر میں بہت دشواریاں پیش آتی ہیں۔

بھارتی باشندوں کی اکثریت امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رہائش کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ کینیڈا اور پرتگال کو بھی پسند کرتے ہیں۔

مذکورہ مدت کے دوران شہریت چھوڑنے کی سب سے زیادہ درخواستیں امریکہ میں مقیم بھارتی باشندوں کی جانب سے آئیں۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور کینیڈا سے۔ ان تین ملکوں سے مجموعی طور پر 30 فی صد درخواستیں آئیں۔

رپورٹس کے مطابق دوسرے ملکوں میں زندگی گزارنے کے بہتر مواقع کی وجہ سے بھارتی باشندے یہاں کی شہریت ترک کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بھارتی پاسپورٹ کی کمزوری بھی بھارتی شہریت ترک کرنے کی ایک وجہ ہے۔

’ملک کا موجودہ سیاسی، سماجی و اقتصادی ماحول بھی ذمہ دار‘

تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں نے یہاں کی شہریت ترک کی ہے۔ وہ اس بارے میں 2019 کی مثال پیش کرتے ہیں جب سب سے زیادہ لوگوں نے یہاں کی شہریت چھوڑی۔

بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اتنی بڑی تعداد میں بھارتی باشندوں کا یہاں کی شہریت ترک کرنا حیرت انگیز نہیں ہے۔

ان کے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کا سیاسی و سماجی ماحول ہے اور بزنس اور انڈسٹری کو پر امن ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس کا یہاں فقدان ہے۔

ان کے بقول اگر جھگڑا، فساد اور تنازعات روز کے معمول بن جائیں، اس کی طویل مدتی حکمت عملی بنائی جاتی رہے اور وہ اسٹیٹ پالیسی بن کر رہ جائے تو اس کے نتیجے میں یہی کچھ ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے ملکوں نے لوگوں کو اچانک بہت زیادہ سہولتیں دینا شروع کر دیں اور مراعات کا اعلان کر دیا۔ ایسا کچھ تو ہوا نہیں ہے تو پھر اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟۔

ان کے خیال میں حکومت کو سوچنا چاہیے کہ آخر لوگوں کا اپنے ملک سے لگاؤ کیوں کم ہو رہا ہے۔ شہریوں کو بھی اس سلسلے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے شہریت کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں آئی ہیں تو اس کی وجہ بھی وہاں کے حالات ہو سکتے ہیں۔

’کوئی بھی امن پسند شہری پر امن جگہ کو ترجیح دیتا ہے‘

مختلف امور پر سروے کرنے والے ادارے ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ پروفیسر ہلال احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب ہم لوگ اپنے سروے میں لوگوں سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کو موقع ملے تو کیا آپ کسی دوسرے ملک میں جانا چاہیں گے تو لوگ بہت پرجوش ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی مغربی ملک کی شہریت کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں مغربی ملکوں کی ترقی خاص طور پر نوجوانوں کو بہت متاثر کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اچانک شہریت ترک کرنے میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں کا جو سیاسی، سماجی اور اقتصادی ماحول ہے وہ بہت اچھا نہیں ہے اور اگر کسی امن پسند شہری کے پاس دوسرے ملک میں جانے کے وسائل ہیں تو وہ یہاں رہنا نہیں چاہے گا۔ اس کی وجہ صرف ہندو شدت پسندی میں اضافہ نہیں ہے بلکہ کئی وجوہات ہیں۔

ان کے مطابق نیشنل کرائم بیورو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں جرائم میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا جس کے پاس بھی وسائل و ذرائع ہیں وہ کسی پر امن ملک میں رہنا چاہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ یہاں سے چلا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جرائم ہوتے ہیں مگر وہاں کی حکومتیں ان پر کارروائی کرتی ہیں جب کہ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں کا جو سیاسی طبقہ ہے وہ اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں ہیں وہاں اگر جرائم بڑھ رہے ہیں تو وہاں کی حکومتیں اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح مرکز کی بی جے پی حکومت ملک میں جرائم میں اضافے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

’بھارت اب فلاحی ریاست نہیں رہی‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت اب فلاحی ریاست نہیں رہی بلکہ خیراتی مملکت یا چیری ٹیبل اسٹیٹ بن گیا ہے۔ اب یہاں کی حکومتیں اپنی بقا کے لیے عوام کو بہت سی چیزیں مفت دینے لگی ہیں۔ جیسے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے دو سو یونٹ تک بجلی مفت کر دینا لوگوں کو پسند آتا ہے۔

ان کے خیال میں اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے غریبوں کو دو ہزار روپے مہینہ اور پانچ کلو اناج دیا جا رہا ہے وہ لوگوں کو اچھا لگتا ہے۔ لوگ مودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایسی مملکت میں لوگ شہری کے بجائے ان کے الفاظ میں بھکاری بن جاتے ہیں اور کوئی بھی خوددار شہری ان خیراتوں کو لینا پسند نہیں کرے گا۔ لہٰذا ان عوامل کی وجہ سے بہت سے لوگ بھارت سے دوسرے ملکوں میں بس جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں