بھارتی ریاست ناگالینڈ میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 13 شہری ہلاک

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی/پی ٹی آئی) انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کے مون ضلع کے علاقے اوٹنگ میں سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں کئی شہریوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

سرکاری طور پر ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کتنے لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے لیکن انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس میں کم از کم 11 عام شہریوں کی موت ہوئی ہے۔ جبکہ ناگا پیپلز فرنٹ پارٹی کے رہنما اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ٹی آر۔ زیلیانگ کے مطابق اب تک 13 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس واقعے پر ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ اور ریاست کے وزیر اعلیٰ نیفیو ریو نے ٹویٹ کر کے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے۔

ریاست کے وزیر اعلیٰ نیفیو ریو نے ٹویٹ کیا ہے کہ مون ضلع کے علاقے اوٹنگ میں عام شہریوں کا قتل انتہائی افسوسناک ہے اور وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔

جبکہ ناگالینڈ کے محکمہ دفاع ڈیفنس ونگ کوہیما نے اس واقعے پر ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’علاقے میں عسکریت پسندوں کی ممکنہ کارروائی کے متعلق مصدقہ اطلاعات تھیں جن کی بنیاد پر ناگالینڈ کے ضلع مون کے علاقے تیرو میں ایک آپریشن کی تیاری کی گئی تھی۔ اس واقعے میں جو ہوا اس پر انتہائی معذرت خواہ ہیں۔ اس واقعے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھائیں جائیں گے۔‘

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق انڈین فوج نے اس واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے افسوس ناک واقعہ قرار دیا ہے۔ فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائیں گی۔ فوج نے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ ضلع مون کے علاقے کو ناگالینڈ ‘عسکریت پسند’ گروپ این ایس سی این (کے) اور الفا (یو ایل ایف اے) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

یہ واقعہ ریاست میں منائے جانے والے مقبول تہوار ‘ہارن بل فیسٹیول’ سے پہلے پیش آیا ہے اور اس تہوار میں شرکت کے لیے کئی سفارت کار پہلے سے ہی ریاست میں موجود ہیں۔

ناگا پیپلز فرنٹ پارٹی کے رہنما اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ نے ٹویٹ کر کے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے لکھا: ’میں مون کے علاقے اوٹنگ میں بے گناہ لوگوں کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ اس قتل عام کے لیے کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ فوری طور پر ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے اور اس میں ملوث سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔‘

اپنی دوسرے ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’ایک مہذب معاشرے میں، جہاں ہم سب امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، سکیورٹی فورسز کی جانب سے یہ بربریت افسوسناک ہے۔ میں اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 13 افراد کے سوگوار خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ زخمی جلد صحت یاب ہو جائیں۔‘

ایسٹرن ناگالینڈ پیپلز آرگنائزیشن کے صدر کیکونگچم یمیونگر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ابھی ہمیں اس واقعے میں 14 افراد کے ہلاک ہونے اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ بہت سے لوگ لاپتہ بتائے جاتے ہیں۔ ہم صحیح معلومات انتظار کر رہے ہیں۔‘

کیکونگچم کے مطابق، جائے وقوع سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ وہاں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز بند کر دی گئی ہیں۔ ای این پی او نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیکونگچم نے کہا کہ مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی ہم فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔

نیوز ایجنسی اے این آئی نے انڈین فوج کے نیم فوجی دستے آسام رائفلز کے ایک افسر کے حوالے سے بتایا کہ اس واقعہ میں سکیورٹی فورسز کے ایک اہلکار کی موت ہوئی ہے جبکہ کئی جوان زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ اور امت شاہ نے کیا کہا؟

ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ ریو نے کہا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والوں کے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔ تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی ایس آئی ٹی شکیل دی گئی ہے اور قانون کے مطابق انصاف کیا جائے گا، تمام فریقین سے امن برقرار رکھنے کی اپیل ہے۔

اس کے ساتھ ہی ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس واقعہ پر ٹویٹ کرکے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ایس آئی ٹی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو سوگوار خاندانوں کو انصاف فراہم کرے گی۔

جبکہ حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے اسے دل دوز واقعہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’حکومت ہند کو اصل جواب دینا چاہیے۔ وزارت داخلہ آخر کیا کر رہی ہے کہ نہ تو ہمارے شہری اور نہ ہی ہماری سکیورٹی اہلکار محفوظ ہیں۔‘

انڈیا کے مقامی نجی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق سکیورٹی فورسز میانمار کی سرحد کے قریب مون ضلع میں عسکریت پسندی کے خلاف ایک آپریشن کر رہے اور اسی سلسلے میں اوٹنگ گاؤں پر چھاپہ مارا گیا۔ لیکن پولیس کے مطابق انھوں نے تیرو سے اوٹنگ جانے والی سڑک سے گزرنے والی ایک گاڑی پر فائرنگ کر دی جس میں گاؤں کے لوگ سوار تھے۔

اس کے بعد گاؤں والوں سکیورٹی فورسز کو گھیر لیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق دفاع میں ہونے والی فائرنگ میں کم از کم سات افراد زخمی ہو گئے جبکہ سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گيا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ناگالینڈ کے ضلع مون میں صورتحال اس وقت بھی کشیدہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں