وزیراعظم عمران خان نے گوادر میں جاری احتجاج کا نوٹس لے لیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ وی او اے) پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے گوادر میں ماہی گیروں کے جائز مطالبات کا نوٹس لے لیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹرالرز کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ اس حوالے سے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سے بھی بات کریں گے۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گوادر میں مقامی شہریوں کا لگ بھگ ایک ماہ سے دھرنا جاری ہے۔

اس احتجاج کو ’حق دو تحریک‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں موجود مظاہرین گوادر کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں ٹرالرز کے ذریعے شکار کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

احتجاج کرنے والوں کے مطابق ٹرالرز سے شکار سے مقامی ماہی گیر شدید متاثر ہو رہے ہیں جب کہ سمندری حیات کو بھی اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

وزیرِ اعظم کے بیان پر ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے اعلان کو وہ مثبت سمجھتے ہیں اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ وہ ضدی لوگ نہیں بلکہ وہ مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادر کے مسائل حل ہوں گے تو ان سے زیادہ خوش کون ہو گا البتہ مسئلہ اعلانات پر عمل درآمد کا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیرِ اعظم نے نوٹس لیا ہے تو وہ اس پر عمل درآمد کی بھی توقع رکھتے ہیں۔

دوسری جانب لاہور میں وزیرِ مملکت فرخ حبیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گوادر میں کچھ ماہی گیری پہلے سے بھی ہو رہی ہے جس میں لائسنس پہلے جاری کیے گئے تھے جب کہ غیر قانونی ماہی گیری بھی کی جا رہی ہے جس پر عمران خان سخت نوٹس لے چکے ہیں۔ ان معاملات کو دیکھنے اور ایک پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔

عمران خان کے اعلان پر سینئر صحافی حامد میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ گوادر کے ماہی گیروں کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں البتہ ان کے اعلان پر تا حال عمل درآمد نہیں ہوا۔

خیال رہے کہ گوادر میں لگ بھگ ایک ماہ سے ‘حق دو تحریک‘ کے تحت دھرنا جاری ہے۔ پہلے اس تحریک کا نام ’حق دو گوادر کو‘ تھا جس کو بعد میں تبدیل کیا گیا۔

مظاہرین گوادر میں غیر قانونی فشنگ کی روک تھام، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، پینے کے صاف پانی اور روزگار کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دھرنے کی قیادت جماعت اسلامی کے مقامی رہنما ہدایت الرحمٰن کر رہے ہیں جو دھرنے کے مقام پر ہی خیمہ لگائے بیٹھے ہیں۔

حق دو بلوچستان تحریک’ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں جن میں ان پر ملک کے خلاف لوگوں کو جنگ پر اکسانے اور بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

البتہ مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا تگا کہ ان کا دھرنا آئینی، قانونی اور جمہوری حقوق کے لیے ہے۔ وہ گرفتاری دینے کے لیے بھی تیار ہیں البتہ دھرنا مطالبات پر عمل درآمد تک جاری رہے گا۔

اس احتجاج کے آغاز میں 28 نومبر کو گوادر میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور دیگر حقوق کے حصول کے لیے ہزاروں خواتین نے ریلی بھی نکالی تھا۔ خواتین کی اس ریلی کو شہر میں نکلنے والی سب سے بڑی ریلی قرار دیا گیا۔

منتظمین کا دعویٰ تھا کہ ‘گوادر کو حق دو’ کے نام سے نکالی گئی اس ریلی میں 15 ہزار کے لگ بھگ خواتین اور بچوں نے شرکت کی تھی۔

”گوادر کو حق دو” تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟
اس تحریک کے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ سمندر میں غیر قانونی طور پر مچھلیوں کے شکار کا خاتمہ ہے۔ تحریک کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ سندھ سے دو ہزار کے قریب ٹرالر بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالنگ کر رہے ہیں۔

تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کے دوران ممنوعہ جال بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف گوادر بلکہ مقامی ماہی گیروں کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

گوادر کو حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ اس سے قبل چین کے بھی چار سے پانچ ٹرالرز آئے اور مبینہ طور پر غیرقانونی شکار شروع کیا جس پر انہوں نے سخت ردِعمل دیا اور احتجاج کیا اور چینی ٹرالرز واپس لوٹ گئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ غیرقانونی طور پر مچھلی کا شکار کرنے والوں کے پیچھے بہت بڑا مافیا ہے اسی لیے ان کا صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ گوادر سے مکران تک، سمندری حدود میں غیر قانونی طور پر ٹرالنگ کو فی الفور روکا جائے۔

دھرنے میں شامل مظاہرین کا ایک مطالبہ گوادر شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹوں کے ذریعے عوام کو بلا جواز تنگ کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول سیکیورٹی چیک پوسٹیں ضرور بنائی جائیں مگر یہ عوام کی توہین کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے کام کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں