ایران اور طالبان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوششوں کی مذمت

تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) تہران حکومت اور افغان طالبان نے ایران اور افغانستان سمیت خطے سے متعلق امریکی سیاست پر کڑی تنقید کی ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک نے کہا ہے کہ امریکا کی ایک اہم سیاسی حکمت عملی تہران اور کابل کے مابین اختلافات کو ہوا دینا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے افغانستان کے اعلیٰ ترین سفارت کار امیر خان متقی کے ساتھ تہران میں ہونے والی ایک ملاقات میں اتوار نو جنوری کی شام کہا کہ واشنگٹن حکومت کی اس خطے سے متعلق سیاسی اسٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ افغانستان اور ایران کے مابین محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنا ہے۔

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پیر دس جنوری کے روز تہران سے اپنے مراسلے میں لکھا کہ عبداللہیان نے اس ملاقات میں زور دے کر کہا کہ امریکا اس خطے سے متعلق اپنے سیاسی ارادوں میں کامیاب نہیں ہو گا۔

ایران کا امریکا کو مشورہ

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھے جن کا ارتکاب اس نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران اپنی افغانستان سے متعلق پالیسی میں کیا۔

اس موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ امریکا نے گزشتہ برس موسم گرما میں ہندوکش کی اس ریاست سے اپنے آخری فوجی دستے بھی نکال تو لیے تھے، تاہم واشنگٹن اب تک افغانستان پر سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

متقی کے مطابق اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج افغانستان کی آبادی کے 80 فیصد حصے کو غربت کا سامنا ہے اور ان کے مطابق اس کے لیے بھی امریکا ہی قصور وار ہے۔

ایرانی ویب سائٹ پر شائع شدہ خبر بےچینی کا باعث

تہران میں اتوار کی شام جب ایرانی اور افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو رہی تھی، تقریباﹰ اسی وقت ایرانی نیوز ویب سائٹ عصر ایران پر شائع شدہ ایک خبر کی وجہ سے کافی بےچینی بھی پیدا ہو گئی۔

اس نیوز ویب سائٹ نے لکھا تھا کہ ایرانی حکومت تہران میں افغان سفارت خانے کی عمارت طالبان کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے صدر اشرف غنی کے دور میں تہران میں تعینات کیے گئے افغان سفیر مبینہ طور پر ایران سے فرار ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔

دونوں وزراء کی طرف سے تردید

ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان اور ان کے پہلی مرتبہ تہران کے دورے پر آئے ہوئے افغان ہم منصب متقی نے عصر ایران کی اس خبر کی فوری طور پر تردید کر دی۔ تاہم کئی مبصرین کا خیال ہے کہ تہران میں افغان سفارت خانے کا طالبان کے حوالے کیا جانا کوئی بہت غیر معمولی بات اس لیے نہیں ہو گی کہ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی افغان سفارت خانے اب کابل میں طالبان کی حکومت کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔

کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت کی اس بارے میں سوچ ابھی تک منقسم ہے کہ اسے کابل میں برسراقتدار طالبان کے ساتھ آئندہ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایرانی سیاست دانوں کے مطابق افغان طالبان اب پہلے والے طالبان نہیں رہے۔ اس کے برعکس کچھ ایرانی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کئی حالیہ واقعات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ افغان طالبان اب بدل چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں