امریکا: ٹیکساس حملہ آور کی شناخت پاکستانی نژاد ملک فیصل اکرم کے نام سے ہوگئی

لندن + واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے ٹیکساس کی ایک عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنانے والے شخص کی شناخت کر لی ہے، جو 44 سالہ برطانوی شہری تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس واقعے کو ‘دہشت گردانہ کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1482785207371681792?t=h4S2XOKeA5S7uP7KpaoY_Q&s=19

امریکا کے وفاقی تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) کا کہنا ہے کہ ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنانے والے شخص کی شناخت کر لی گئی، جو ایک برطانوی شہری تھا۔ ان کی شناخت 44 سالہ ملک فیصل اکرم کے طور پر کی گئی ہے۔

ٹیکساس کے چھوٹے سے شہر کَولی وِل کے ایک سیناگوگ (یہودی عبادت گاہ) میں ربّی سمیت چار افراد کو سنیچر کے روز یرغمال بنا لیا گیا تھا، جنہیں دس گھنٹے کی کارروائی کے بعد رہا کرا لیا گیا۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران یرغمال بنانے والے شخص ملک فیصل کی گولی لگنے سے موت ہو گئی۔

ملک فیصل اکرم کے بھائی گلبار کے مطابق اُن کا 44 سالہ بھائی ذہنی بیماری کا شکار تھا۔

یاد رہے کہ 44 سالہ برطانوی شہری ملک فیصل اکرم نے سنیچر کی صبح کولیول نامی علاقے میں یہودی عبادت گاہ میں موجود چار افراد کو یرغمال بنا لیا تھا تاہم بعدازاں وہ پولیس کی فائرنگ سے مارے گئے تھے جبکہ یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا تھا۔

امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق فیصل اکرم کو پاکستانی نیورو سائنس دان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے سُنا گیا تھا جو یہودی عبادت گاہ سے تقریبا 20 میل دور فورٹ ورتھ جیل میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت 86 سال قید کی سزا بھگت رہی ہیں۔

فیصل ملک کے والد کا تعلق جہلم سے، برطانیہ میں بنیاد پرست بنا

فیصل ملک کے خاندانی ذرائع نے پاکستانی نیوز چینل جیو کو بتایا کہ ملک فیصل اکرم کے والد ملک اکرم ہیں جو مقامی کمیونٹی کی ایک معزز شخصیت ہیں جو کہ اصل میں جہلم سے ہیں اور تقریباً چار دہائیاں قبل برطانیہ ہجرت کر گئے تھے۔

ملک اکرم اور ان کا قریبی خاندان مقامی سیاست میں شامل رہا ہے اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک ملک عرفان لیبر پارٹی کے کونسلر ہیں۔

نمائندہ جیو سے بات کرنے والے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ملک اکرم اور ان کا خاندان مقامی طور پر دوسروں کے ساتھ اچھا گزرا۔

اس نمائندے نے کم از کم تین خاندانی ذرائع سے بات کی جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملک فیصل کا اپنے خاندان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں تھا جو مذہبی لیکن پرامن اور روادار ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

ملک اکرم کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ فیصل کے بھائیوں میں سے ایک حال ہی میں کوویڈ میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کر گیا تھا۔ ملک اکرم رنڈال سٹریٹ پر واقع اسلامک سنٹر کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، جسے رضا مسجد کہا جاتا ہے۔

جہاں زیادہ تر پاکستانی نماز کے لیے جاتے ہیں لیکن ملک فیصل نے ایلڈن راڈ کی مسجد عرفان جاتے تھے، جس میں زیادہ تر بھارت کے گجراتی مسلمان کمیونٹی نے شرکت کی۔

ایک مقامی ذریعے نے بتایا کہ ملک فیصل اکرم نے فلسطین کی آزادی کے لیے ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا اور گوانتاناموبے میں قید مسلمانوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا۔

اس کی شادی ایک برطانوی گجراتی خاتون سے ہوئی تھی۔ جیسے ہی فیصل کے یرغمال بنانے میں ملوث ہونے کی خبر سامنے آئی، مقامی بلیک برن کونسل نے تمام مقامی کونسلرز سے درخواست کی کہ وہ میڈیا سے بات نہ کریں۔

’بھائی ذہنی بیماری کا شکار تھا‘

بازیابی کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے ملک فیصل اکرم کا تعلق برطانیہ کے علاقے بلیک برن سے تھا جہاں کی مقامی بلیک برن مسلم کمیونٹی کے فیس بک پیج پر ان کے بھائی گلبار کی جانب سے ایک تحریری پیغام جاری کیا گیا ہے۔

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1482793208593719298?t=zKsyFL3yKrCmTwajn5PeVQ&s=19

اس پیغام میں انھوں نے یہودی عبادت گاہ میں یرغمال بنائے جانے والوں سے معافی مانگتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کا بھائی ذہنی بیماری کا شکار تھا۔

فیصل اکرم کے بھائی کے مطابق وہ اس واقعے کے دوران فیصل کے ساتھ ساتھ ایف بی آئی سے بھی رابطے میں تھے تاکہ فیصل کو یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے جس سے اسے ہتھیار ڈالنے پر رضامند کیا جا سکے۔’

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1482794101217107971?t=pC0CwQN-73WwzmLYZUutvg&s=19

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اور ان کا خاندان ملک فیصل اکرم کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس اقدام کی حمایت نہیں کرتا اور وہ اس واقعے کے تمام متاثرین سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔’

انھوں نے مذید کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی انسان پر حملہ چاہے وہ یہودی ہو، مسیحی ہو یا مسلمان ہو، غلط ہے اور اس کی ہمیشہ مذمت ہونی چاہیے۔’

ایک قریبی رشتہ دار نے غیر ملکی صحافی کو بتایا: “ملک فیصل اکرم اس قسم کے شخص نہیں تھے۔

وہ چند بار تبلیغی جماعت کے ساتھ گئے اور ہمیشہ شائستگی اور فکری گفتگو کی۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس نے ایسا قدم اٹھایا۔ وہ کاروباری ذہن اور ہوشیار تھا۔ پوری کمیونٹی صدمے کی کیفیت میں ہے۔

یہ درست ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں اس کے اپنے خاندان کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے تھے اور وہ پریشان تھے لیکن عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے امریکا جانا ناقابل یقین ہے۔

برطانیہ میں مذید گرفتاریاں

امریکہ میں ہونے والے اس حملے کے بعد کی جانے والی تحقیقات کے سلسلے میں برطانیہ سے دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جنوبی مانچسٹر میں اتوار کی شام گرفتار کیے جانے والے ان لوگوں کے بارے میں اداروں کی جانب سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

گریٹر مانچسٹر پولیس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ امریکہ سے تحقیقات میں تعاون کیا جا رہا ہے اور گرفتار کیے گئے دونوں افراد کو اسی سلسلے میں حراست میں لیا کیا ہے۔ پولیس کے مطابق زیر حراست افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

انہیں بندوق کیسے ملی اور کیا ان کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا؟

بندوق خریدنے کے متعلق کھلے قوانین کے باوجود، ٹیکساس میں غیر ملکیوں، جو امریکی رہائشی نہیں ہیں، کو قانونی طور پر بندوق خریدنے کی اجازت نہیں۔ فیصل اکرم مبینہ طور پر دو ہفتے قبل امریکہ پہنچے تھے، تو یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے ہتھیار کیسے حاصل کیا۔

ہفتے کے آخر میں فلاڈیلفیا میں ایک فوڈ بینک کے دورے کے دوران صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ حکام کے پاس ابھی تک مکمل حقائق نہیں ہیں، تاہم ایک نظریہ ضرور پیش کیا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ ’یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں گلی سے (غیر قانونی طریقے سے) ہتھیار ملے۔ جب وہ امریکہ پہنچے تو انہوں نے ہتھیار خریدا۔ پتہ چلا ہے کہ ان کے پاس کوئی بم نہیں تھا، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔‘

سی بی ایس کے مطابق عبادت گاہ سے کوئی دھماکہ خیز مواد نہیں ملا تھا (اتوار کی رات رات 12 بجکر 17 منٹ تک)۔ فیصل اکرم نے مبینہ طور پر نامعلوم مقامات پر بم نصب کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ایک عہدیدار نے سی بی ایس کو بتایا کہ فیصل اکرم ہفتے کو ایک بے گھر شخص ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عبادت گاہ کی سروس میں داخل ہوئے۔

جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ یرغمال بنانے والے نے اپنی پہلی رات امریکہ میں بے گھر افراد کے لیے بنائی گئی ایک پناہ گاہ میں گزاری۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اکرم کے اقدامات کو ’دہشت گردی کی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

یہودی عبادت گاہ میں کیا ہوا تھا؟

امریکہ کی پولیس کے ذرائع کے مطابق ملک فیصل اکرم دو ہفتے قبل نیو یارک جے ایف ایئرپورٹ پر پہنچے تھے۔

یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح تقریباً 11 بجے کے لگ بھگ شروع ہوا جب مقامی پولیس کو ڈیلس کے نواح میں یہودی عبادت گاہ پہنچنے کی کال موصول ہوئی۔

کولیویل کے محکمہ پولیس نے مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ کانگریگیشن بیتھ اسرائیل نامی عبادت گاہ پر ایک ’سپیشل ویپنز اینڈ ٹیکٹکس (سواٹ) آپریشن‘ کر رہی ہے۔ ٹویٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ہم آپ سے درخواست کریں گے کہ آپ اس علاقے میں جانے سے گریز کریں۔‘

امریکی چینل سی بی ایس نے پولیس ذرائع سے بتایا تھا کہ فیصل اکرم اس یہودی عبادت گاہ میں اس وقت داخل ہوئے جب عبادت ہو رہی تھی اور انھوں داخلی دروازے پر بتایا کہ وہ بے گھر ہیں۔

واضح رہے کہ کانگریگیشن بیتھ اسرائیل نامی کنیسا میں جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہاں ہونے والی عبادت کو لائیو سٹریم کیا جا رہا تھا۔ اس لائیو سٹریم فیڈ میں ایک شخص (مبینہ طور پر حملہ آور) کو اونچی آواز میں یہ کہتے سُنا جا سکتا تھا کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔

وہ اس دوران کہہ رہا تھا ’میری بہن سے فون پر میری بات کروائیں‘ اور ’میں مر جاؤں گا۔‘ انھیں یہ بھی کہتے سُنا گیا کہ ’امریکہ کے ساتھ کچھ غلط ہے۔‘

یرغمال بنائے جانے والے چار افراد تھے جن میں کنیسا کے ربی بھی شامل تھے۔ یرغمال افراد میں سے ایک شخص کو چھ گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا تھا جب کہ باقی تین افراد کو بھی کئی گھنٹوں بعد پولیس نے بحفاظت بازیاب کروا لیا تھا۔

10 گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد کولیویل پولیس اور ایف بی آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ تمام یرغمالیوں کو بحفاظت رہا کروا لیا گیا ہے جبکہ ملزم مارا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ملک فیصل اکرم کے پاس کسی قسم کا دھماکہ خیز مواد موجود نہیں تھا جب کہ امریکی عدالت میں ان کا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ ایف بی آئی نے کہا ہے کہ فی الحال اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ اس واقعے میں کوئی اور فرد بھی ملوث تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے چار افراد کے یرغمال بنائے جانے کو ’دہشت گردی کی کارروائی‘ قرار دیا اور اس بات کی بالواسطہ طور پر تصدیق بھی کی کہ حملہ آور عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ٹیکساس حملے کا تعلق ’کسی ایسے فرد سے تھا جسے 15 سال قبل گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 10 سال سے جیل میں تھا۔‘

یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملے اور قتل کی کوشش کرنے کے سات الزامات میں مجرم قرار دیا تھا اور انھیں 86 سال قید کی سزا سُنائی تھی۔

’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی اہم کہانی

امریکہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کی کہانی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے اہم رہنما اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔

خالد شیخ محمد کو گرفتاری کے بعد گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا جس کے بعد وہ اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ 2003 میں پاکستان سے پراسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں۔ جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے اپنے سابقہ شوہر ڈاکٹر محمد امجد خان سے سن 2002ء میں علحیدگی اختیار کرلی تھی اس وقت ان کے گھر تیسرے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ بعد میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے خالد شیخ محمد کے ایک بھتیجے علی عبدالعزیز سے شادی کرلی تھی جس کی خالد شیخ محمد کی فیملی نے تصدیق کی تھی۔

خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھا ان پر الزام ہے کہ انہوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وہ اس وقت گوانتاناموبے جیل میں قید ہیں۔

عافیہ صدیقی کون ہیں؟

ڈاکٹر عافیہ کو جولائی 2008 میں افغان پولیس نے کیمیائی اجزا اور ایسی تحریریں رکھنے پر گرفتار کیا تھا جن میں نیویارک پر حملے کا ذکر تھا جس میں بھاری جانی نقصان ہو سکتا تھا۔

حکام کے مطابق ڈاکٹر عافیہ نے کیمیائی اجزا اور نیویارک میں حملے کے بارے میں تحریروں کی برآمدگی کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر رائفل اٹھا کر فوجیوں پر گولیاں چلائیں۔ اس حملے میں کوئی امریکی زخمی نہیں ہوا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ عافیہ نے بدحواسی کی کیفیت میں رائفل چھینی اور فائرنگ کی۔ ان کا موقف تھا کہ عافیہ کے اس عمل کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔

عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملے اور قتل کی کوشش کے سات الزامات میں مجرم قرار دیا تھا اور انھیں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں