پارلیمان کا ایک تہائی ایجنڈا خواتین ارکان کی جانب سے پیش کیا گیا: فافن رپورٹ

اسلام آباد (ڈیلی اردو) خواتین ارکان پارلیمان نے جاری پارلیمانی سال کے دوران بھی نمایاں کارکردگی کا امتیاز برقرار رکھا۔

عالمی یوم نسواں کے موقع پر فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ایک تہائی ایجنڈا خواتین کی جانب سے پیش کیا گیا جبکہ مفاد عامہ پر ہونے والے مباحث میں بھی خواتین نے بھرپور حصّہ لیا۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے ایجنڈے پر شامل ہونے والے نجی قانونی مسوّدات کا 53 فیصد (74 میں سے 39)، قراردادوں کا 27 فیصد (100 میں سے 27)، توجہ دلاؤ نوٹسوں کا 47 فیصد (108 میں سے 51)، اور سوالات کا 32 فیصد (1772 میں سے 561) ان بیس فیصد خواتین ارکان کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ مزیدبرآں، پارلیمانی قواعد میں ترامیم کی 40 فیصد تجاویز (10 میں سے چار)، اور مفاد عامہ کے معاملات پر بحث کی 39 فیصد تحاریک (104 میں سے 41) بھی انہی خواتین نے جمع کرائیں۔

پارلیمانی ایجنڈے کا 30 فیصد خواتین ارکان نے خود پیش کیا جبکہ تین فیصد ایجنڈا دیگر مرد اراکین کی شراکت کے ساتھ پیش کیا۔ واضح رہے کہ موجودہ پارلیمان میں خواتین کا تناسب بیس فیصد ہے جن میں 69 ارکان قومی اسمبلی اور 20ارکان سینیٹ شامل ہیں۔

اوسطاّ ہر خاتون رکنِ قومی اسمبلی نے آٹھ ایجنڈا آئٹم اور ہر مرد رکنِ قومی اسمبلی نے تین ایجنڈا آئٹم پیش کیے۔ اسی طرح سینیٹ میں ہر خاتون رکن نے سات ایجنڈا آئٹم اور مرد رکن نے آٹھ ایجنڈا آئٹم جمع کرائے۔ ایجنڈا جمع کرانے کے ساتھ ساتھ خواتین نے ایوان میں ہونے والے مباحث اور مفاد عامہ کے بارے میں نکاتِ اعتراض بھی اٹھائے۔ قریباً 62 فیصد خواتین ارکان پارلیمان نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہونے والے مباحث میں شرکت کی۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ویب سائٹوں پر دستیاب حاضری کے مطابق خواتین اراکین کی حاضری بھی مرد اراکین کی نسبت زیادہ رہی۔ ہر خاتون رکنِ قومی اسمبلی نے اوسطاّ 83 فیصد نشستوں میں شرکت کی جبکہ مرد ارکانِ قومی اسمبلی 64 فیصد نشستوں میں حاضر ہوئے۔ اسی طرح ہر خاتون رکنِ سینیٹ نے اوسطاً 70 فیصد نشستوں میں اور مرد ارکانِ سینیٹ نے 57 فیصد نشستوں میں شرکت کی۔

مزید برآں، اگر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی گذشستہ سال کے دوران منعقدہ نشستوں میں حاضر ارکان کی تعداد کی اوسط نکالی جائے تو قومی اسمبلی کی ہر نشست میں اوسطاً خواتین کی کل تعداد کے 70 فیصد اور مردوں کی کل تعداد کے 60 فیصد ارکان نے شرکت کی۔ سینیٹ کی ہر نشست میں بھی 83 فیصد خواتین ارکان اور 71 فیصد مرد ارکان نے شرکت کی۔

تاہم، خواتین کی نمایاں کارکردگی کے باوجود ان کی جانب سے پیش کیا گیا بیشتر ایجنڈا ایوان میں زیرِ غور نہ آسکا۔ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خواتین ارکان کی جانب سے جمع کرائے جانے والے قانونی مسوّدات کو مردوں کے قانونی مسوّدات کی نسبت زیادہ عرصہ التوا میں رکھا جاتا ہے۔

اس برس کے دوران قومی اسمبلی میں خواتین کے انیس مسوّدات میں سے صرف پانچ (پچیس فیصد) ایوان میں متعارف کرائے جاسکے جبکہ مردوں کے بارہ مسوّدات میں سے سات (اٹھاون فیصد) ایوان میں متعارف کرائے گئے۔ اسی طرح خواتین کی جانب سے پیش کردہ سولہ قراردادوں میں سے صرف دو (بارہ فیصد) منظور کی گئیں جبکہ مردوں کی جانب سے پیش کردہ تیرہ قراردادیں منظور کی گئیں جو کہ ان کی کل قراردادوں کا پنتالیس فیصد تھیں۔

خواتین کی جانب سے لایا جانے والا زیادہ تر ایجنڈا نجی اراکین کے ایجنڈے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ مردوں کے ایجنڈے میں حکومتی ایجنڈے کا بھی خاصا حصّہ ہوتا ہے۔ 2017-2018 کے مقابلے میں خواتین اراکین کے ایجنڈے میں کمی دیکھنے میں آئی۔

گذشتہ پارلیمانی سال کے دوران پارلیمان کے ایجنڈے میں خواتین اراکین کا حصّہ 39 فیصد تھا جبکہ موجودہ سال کے دوران یہ شرح 33 فیصد پر آگئی۔ البتہ اس عرصے میں قومی اسمبلی میں خواتین کی اوسط حاضری میں اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ سینیٹ میں خواتین کی حاضری کی شرح گذشتہ سال کی سطح (64 فیصد) پر برقرار رہی۔ گذشتہ برس خواتین ارکانِ قومی اسمبلی نے اوسطاً 67 فیصد نشستوں میں شرکت کی تھی جبکہ اس برس یہ شرح بڑھ کر 83 فیصد پر پہنچ گئی۔

یہ رپورٹ اگست 2018 سے فروری 2019 کے دوران منعقدہ موجودہ قومی اسمبلی کے آٹھ اجلاسوں اور مارچ 2018 سے فروری 2019 کے دوران ہونے والے سینیٹ کے 13 اجلاسوں کی کارروائی کے جائزے پر مبنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں