فلسطینی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ کے جنازے پر اسرائیلی پولیس کا حملہ

غزہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز/ڈی پی اے) فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو رواں ہفتے گیارہ مئی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جمعہ 13 مئی کو ان کے جنازے کے جلوس پر اسرائیلی پولیس نے حملہ کر کے اسے درہم برہم کر دیا۔ عالمی برادری نے اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔

جمعہ تیرہ مئی کو یروشلم کا قدیمی علاقہ الجزیرہ نیوز ٹیلی وژن چینل سے منسلک سینیئر فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کی نماز جنازہ میں شریک ہزاروں فلسطینیوں سے بھرا ہوا تھا۔ نماز جنازہ میں شریک افراد کو اسرائیلی پولیس کی اچانک کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کارروائی کے دوران مقتول صحافی کا تابوت بھی گر گیا، جسے انتہائی افسوس ناک بات قرار دیا گیا۔

مقامی ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق پولیس کے دھاوے سے کم از کم تینتیس افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی پولیس نے چھ فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا ہے۔

شیریں ابو عاقلہ کی الوداعی میموریئل سروس فلسطینی صدر محمود عباس کی رہائش گاہ واقع راملہ میں ادا کی گئی اور سرکاری سطح پر آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہی ان کے تابوت کو یروشلم منتقل کیا گیا۔

شیریں ابو عاقلہ کی موت

خاتون صحافی کو فلسطینی علاقے جینین میں اسرائیلی پولیس کے چھاپے کی کوریج کے دوران گولی لگی اور وہ ہلاک ہو گئیں۔ انہیں جب گولی لگی، اس وقت وہ صحافیوں کو تنازعات کے علاقے میں پہنے جانے والی نیلی جیکٹ، جس پر پریس لکھا ہوتا ہے، میں ملبوس تھیں۔

الجزیرہ اور فلسطینی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ خاتون صحافی کو موت اسرائیلی پولیس کی گولی لگنے سے ہوئی جب کہ اسرائیلی موقف ہے کہ انہیں کسی فلسطینی نے امکانی طور پر ہلاک کیا ہے۔

شیریں ابو عاقلہ تین جنوری سن 1971 میں یروشلم میں فلسطینی عرب مسیحی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ امریکی شہریت بھی رکھتی تھیں۔ انہوں نے اردن یونیورسٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی میں آرکیٹیکٹ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ الجزیرہ کے ساتھ انہوں نے کام سن 1997 میں شروع کیا اور مرتے دم تک اسی ادارے کے ساتھ منسلک رہیں۔ وہ مشرقی یروشلم کی رہائشی تھیں۔

اسرائیلی پولیس کا موقف

اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ جنازے کے شرکا کو کئی مرتبہ متنبہ کیا گیا کہ وہ جلوس میں قوم پرستانہ گیت گانے سے اجتناب کریں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے گیت پہلے سے مشتعل افراد کے جذبات بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں اور یہی مشتعل مظاہرین مسلسل جنازے کے جلوس کو درہم برہم کرنے کی کوشش میں تھے۔

پولیس کے مطابق جنازے میں شریک مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کرنے کے علاوہ شیشے کی بوتلیں بھی پھینکی تھیں اور اس باعث کارروائی کی گئی۔

مشہور فلسطینی رہنما حنان اشروی کے بقول،” تابوت برداروں پر بھی اسرائیلی پولیس کی کارروائی اسرائیل کے غیر انسانی رویے کی عکاس ہے۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ اسرائیلی ریاست میں فلسطینی پرچم لہرانا ممنوع ہے اور ایسے گروپوں کی سرگرمیوں کو مقامی پولیس کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بین الاقوامی برادری کی مذمت

امریکا کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ خاتون صحافی کے جنازے کے جلوس میں اسرائیلی پولیس کی مداخلت قابلِ افسوس ہے۔ بلنکن نے مزید کہا کہ ہر خاندان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مرحوم کی آخری رسومات کو محبت اور احترام کے ساتھ ادا کرے۔

اس صورتِ حال کو امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں بلائی گئی ایک میٹنگ میں بھی زیر بحث لایا۔ بعد میں ان معاملات پر انہوں نے اردنی حکمران شاہ عبداللہ ثانی کے ساتھ کی گفتگو بھی کی۔

یورپی یونین کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ،”سینٹ جوزف ہسپتال کے پرتشدد مناظر قابلِ افسوس ہیں اور ایسے موقع پر اسرائیلی پولیس کا طاقت و قوت کا غیر ضروری استعمال بھی غیر مناسب تھا۔ فرانسیسی قونصل جنرل نے بھی ہسپتال میں پولیس کے تشدد کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان نے بتایا کے اسرائیلی پولیس کی کارروائی سے عالمی ادارے کے سربراہ کو صدمہ پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی فوری طور پر شفاف اور غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں