چین کی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر کو سنکیانگ دورے کی اجازت

بیجنگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر پیر کے روز چین کے سنکیانگ خطے کا دورہ کریں گی۔ چین نے برسوں بعد اس کی اجازت دی ہے۔ بیجنگ پر ایغور مسلم اقلیتوں کے خلاف زیادتیوں اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق میشیل بیچلیٹ پیر کے روز چھ روزہ دورے پر چین پہنچ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے برسوں سے دی گئی درخواست کے بعد اب بیجنگ نے سنکیانگ علاقے میں بامعنی اور بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دی ہے۔

اقوام متحدہ نے سن 2018 میں کہا تھا کہ ہزاروں ایغور مسلمانوں کو ”انسداد دہشت گردی کے مراکز”او”تطہیری کیمپوں”میں رکھا گیا ہے۔

بیجنگ نے جمعے کے روز بیچلیٹ کے دفتر کو ان کے دورے کی اجازت کی منظوری دی۔ یہ سن 2005 کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کسی کمیشنر کا چین کا پہلا دورہ ہوگا، جب لوئس آربر وہاں گئی تھیں۔

بیچلیٹ کے دفتر نے ایک بیان میں کہا،”دورے کے دوران ہائی کمیشنر قومی اور مقامی سطح کے متعدد اعلی سطحی عہدیداروں سے ملاقات کریں گی۔ وہ سول سوسائٹی کی تنظیموں، تجارتی نمائندوں، ماہرین تعلیم اور دانشوروں سے بھی ملاقات کریں گی اور گوانگ زو یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کریں گی۔”

بچیلیٹ کے دورے پر شبہات

بیچلیٹ نے جب سن 2018 میں انسانی حقوق کمیشنر کا عہدہ سنبھالا تھا اس کے بعد سے ہی وہ چین کے تمام خطوں تک رسائی دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ وہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے الزامات پر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ لیکن چین کے خلاف سخت موقف اختیار نہیں کرنے کی وجہ سے ان کی نکتہ چینی بھی ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے ذاتی حیثیت میں وہاں کی صورت حال کی جو تفتیش کی تھی اس کی رپورٹ بھی اب تک شائع نہیں کی۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیشنر کن شرطوں پر یہ دورہ کررہی ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چینی حکام اپنی مرضی کے مطابق دورے کا پروگرام طے کرسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ صرف ”دوستانہ دوروں” پر ہی ہمیشہ اصرار کرتے ہیں۔

امریکہ نے جمعہ کو کہا کہ اسے متعدد پابندیوں کے ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشنر کے چین کے دورے پر شدید تشویش ہے۔ واشنگٹن نے بیچلیٹ سے سنکیانگ کے حوالے سے اپنی رپورٹ شائع کرنے کی بھی اپیل کی۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ بیجنگ ایغوروں کے خلاف نسل کشی کی مہم چلا رہا ہے۔

دورے کی حیثیت پر سوال

چین کے متعلق ایک بین الپارلیمانی اتحاد میں شامل 18 ملکوں کے 40 سے زائد قانون سازوں نے بیچلیٹ کے دورہ کے طریقہ کار پربیجنگ کی نکتہ چینی کی اور کہا کہ اس سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ہائی کمیشنر کے دفتر کا درجہ اور حیثیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ کووڈ 19 کے نام پر عائد پابندیاں بھی بیچلیٹ کے نقل و حمل اور مختلف لوگوں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کو محدود کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

حقوق انسانی گروپوں نے بھی اس دورے پر اپنے شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ چین کی ڈائریکٹر صوفی رچرڈسن نے ایک بیان میں کہا،”اس بات کا امکان نہیں ہے کہ چینی حکومت ہائی کمیشنر کو ان چیزوں کو دیکھنے کی اجازت دے دے گی جو وہ انہیں نہیں دکھانا چاہتی یا حقوق انسانی کے علمبرداروں، متاثرین یا ان کے خاندان سے بلا روک ٹوک یا کسی خوف کے بغیر بات چیت کرنے کی اجازت دے گی۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں