اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستانی طالبان نے کابل میں اسلام آباد حکومت کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں ’واضح پیش رفت‘ کے بعد فائربندی کی مدت میں غیرمعینہ مدت کے لیے توسیع دے دی ہے۔
گزشتہ برس افغان دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں تحریک طالبان کے حملوں میں خاصی تیزی دیکھی گئی تھی۔ اسلام آباد حکومت ان حملوں کی ذمہ داری افغان سرزمین پر موجود پاکستانی طالبان پر عائد کرتی ہے۔ گو کہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) میں شامل عسکریت پسندوں کا تعلق پاکستان ہی سے ہے، تاہم یہ گروپ افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کا حامی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل میں اسلام آباد حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات افغان طالبان ہی کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان سے جڑے عسکری گروہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستانی فورسز اور عام شہری املاک کے خلاف بدترین حملوں میں ملوث رہے ہیں تاہم حالیہ کچھ عرصے میں اسلام آباد حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
ان مذاکرات کو مزید تقویت تب ملی جب کہ منگل کو پاکستان کے قبائلی عمائدین کا ایک وفد نئے مذاکراتی دور کے لیے کابل پہنچا۔ کابل سے تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”گزشتہ دو روز میں اس مذاکراتی عمل میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے، جس کے بعد ٹی ٹی پی نے فائربندی کی مدت میں غیرمعینہ مدت کے لیے توسیع کر دی ہے۔‘‘
فریقین کے درمیان عیدالفطر کے موقع پر فائربندی معاہدہ طے پایا تھا، جس کی مدت 30 مئی تک متعین کی گئی تھی۔ خراسانی نے مزید کہا کہا، ”مذاکرات کو مزید آگے بڑھانے کے لیے مزید ملاقاتیں اگلے چند روز میں ہوں گی۔‘‘
ایک پاکستانی حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر کیے بغیر خبر برساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ مذاکرات ‘مثبت سمت‘ میں گامزن ہیں۔ ان مذاکرات میں پیش رفت دوسری جانب افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کی کوشش بھی قرار دیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ برس کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان پہاڑی خطے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ متعدد مواقع پر پاکستان اور افغان سرحدی محافظوں کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھی گئی ہیں۔
گزشتہ ماہ مشرقی افغان علاقے میں ایک پاکستانی فضائی حملے میں 47 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان نے اس حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا تاہم افغان حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو روکے۔