جہادی لٹریچر کا الزام: بھارتی کشمیر میں جماعتِ اسلامی کے زیرِ انتظام اسکولوں پر پابندی عائد

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے زیرِ اہتمام چلائےجانے والے 350 تعلیمی اداروں میں جہادی لٹریچر کی ترویج کا الزام عائد کرتے ہوئے درس و تدریس پرپابندی عائد کر دی ہے۔ ریاست کی انتظامیہ نے محکمۂ تعلیم کے حکام کو حکم دیا ہے کہ وہ متعلقہ ضلع کی انتظامیہ کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ان اسکولوں کو 15 دن کے اندر اندر سیل کر دے۔

ریاستی دارالحکومت سرینگر میں جموں و کشمیر حکومت کے پرنسپل سیکریٹری برائے محکمۂ تعلیم (اسکولز) بی کے سنگھ کے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ اپنے علاقوں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں فوری طور پر داخلہ لے سکتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے سربراہان کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان طلبہ کی رہنمائی کریں۔ رواں تعلیمی سال کے دوران ہی ان کے داخلوں کو یقینی بنایا جائے۔

جماعت اسلامی کے فلاحِ عام ٹرسٹ کے زیرِ انتظام اسکولوں میں بارہویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ اور طالبات کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ سرکاری حکم نامے میں ان پانچ ہزار سے زائد اساتذہ اور عملے کے دیگر ارکان کا سرے سے ہی کوئی ذکر نہیں ہے، جو ان اسکولوں سے وابستہ ہیں۔

حزبِ اختلاف کی تنقید

فلاحِ عام ٹرسٹ کے زیر انتظام اسکولوں کی بندش کے حکومت کے فیصلے پر حزبِ اختلاف اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ بعض ناقدین نے اس اقدام کو بھارت کی حکومت کے ہندوتوا ایجنڈے کا حصہ قرار دیا ہے۔ یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کشمیر کےمتعدد مسلمان سرکاری ملازمین پرملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے اور گزشتہ تین برس میں کئی کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے۔ اب فلاحِ عام ٹرسٹ کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور عملےکو بھی بے روز گارکر دیا گیا ہے۔

اسکولوں کی بندش کے فیصلے پر سابق وزیرِ تعلیم اور حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے رہنما نعیم اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ موجودہ حکومت کے ان ہی رجعت پسندانہ اقدامات اور فیصلوں کی کڑی ہے جن کا مقصد کشمیر کے عوام بالخصوص مسلمانوں کو بے اختیار اور کمزور بناناہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ خود وزیرِ تعلیم رہ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ فلاحِ عام ٹرسٹ اچھا اور قابلِ ستائش کام کر رہی ہے۔ ان کے بقول اس ٹرسٹ کے اسکولوں میں نئی نسل کو بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔

پابندی کی زد میں آنے والے اسکولوں میں سرکاری نصاب رائج

ان کے مطابق ان اسکولوں میں جموں و کشمیر بوڑد آف اسکول ایجوکیشن سے منظور شدہ نصاب رائج ہے جو سرکاری اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں علم الاخلاق اور دینیات کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں جو ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کے لیے ناگزیز ہے۔

فلاحِ عام ٹرسٹ سے وابستہ ایک استاد محمد اکرم (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس ٹرسٹ کے اسکولوں کی فیس نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس کے باوجود ان اسکولوں کا تعلیمی معیار دیگر سےبہتر رہا ہے، جس کی مثال بورڈ کے امتحانات میں طلبہ کی کارکردگی سے بھی واضح ہوتا ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ اسکول حکومت کی آنکھوں میں خار کیوں بن گئے۔

ایک اور استاد شاہد احمد (نام تبدیل کیا گیا ہے) کا کہنا تھا کہ بے روزگار ہونے کا غم نہیں ہے۔ کہیں اور کام کرکے بچوں کی کفالت کا انتظام کر لیں گے البتہ یہ فکر ضرور ہے کہ طلبہ کی تعلیم و تربیت سے دانستہ طور پر محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی خراب کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس کا اعتراف خود حکام بھی متعدد باربرملا کرچکے ہیں۔

’اسکولوں میں درس و تدریس قانون کی خؒلاف ورزی ہے‘

سرکاری حکام فلاحِ عام ٹرسٹ اسکولوں پر بندش کے اقدام کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرسٹ کو 11 مئی 1990 کو سرکاری حکم نامے کے تحت’غیر قانونی تنظیم‘ قرار دیا گیا تھا جس کی تجدید 23 اکتوبر 2019 کو ایک اور سرکاری اعلامیے کے ذریعے کی گئی۔ اس کے باوجود اسکولوں میں درس و تدریس کا کام جاری رکھا گیا جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔

حکام نے الزام لگایا ہے کہ فلاحِ عام ٹرسٹ کے اسکولوں میں ’جہادی لٹریچر‘ کی ترسیل و ترویج جاری ہے۔ طلبہ تک ایسا قابلِ اعتراض ا موادپہنچایا جاتا ہے جو ان کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے جو انہیں دہشت گردی کی طرف مائل کرنے کا موجب ہے۔

حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور جموں و کشمیر کی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی نے دہشت گردی کی مالی معاونت کی الگ الگ تحقیقات میں دیکھا کہ بھارت اور بیرونِ ملک کشمیر میں دینی سرگرمیوں اور تعلیم و تربیت کے امور کے نام پر جمع کی گئی بھاری رقوم کا بڑا حصہ عسکری تنظیموں بالخصوص حزب المجاہدین کو منتقل کیا گیا ہے۔

دوسری جانب فلاحِ عام ٹرسٹ کے منتظمین ان الزامات اور دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ این آئی اے نے گزشتہ برس اگست میں جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں جماعتِ اسلامی کے دفاتر اور عہدیداروں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران فلاحِ عام ٹرسٹ کے علاقائی دفاتر کی بھی تلاشی لی تھی۔

’اسکولوں میں جہادی تعلیم دینے کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں‘

سابق وزیرِ تعلیم اورپی ڈی پی کے رہنما نعیم اختر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان الزامات کی کوئی حقیقت ہے کہ فلاحِ عام ٹرسٹ کے اسکولوں میں جہادی تعلیم دی جاتی ہے یا ان کے علمی نصاب میں جہادی مضامین بالواسطہ یا بلاواسطہ پڑھائے جاتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو ریاست کے وزیرِ تعلیم کی حیثیت یہ معاملہ ضرور ان کے علم ہوتا۔یہ صرف ایک الزام ہے کہ ان اداروں سے انتہا پسند تیار ہو کر نکلتے ہیں جو بعد میں عسکری تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول ان اسکولوں نے اچھے اساتذہ، انجینئر، ڈاکٹر اور دوسرے پیشوں کے بہترین افراد کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پرنسپل سیکریٹری محکمۂ تعلیم (اسکولز) بی کے سنگھ کے 13 جون کو جاری حکم نامے کے مطابق فلاحِ عام ٹرسٹ اسکولوں میں نئے داخلوں کی اجازت ہوگی اور نہ کسی نئے اسکول کی رجسٹریشن ہوسکتی ہے۔ اس ٹرسٹ کے زیرِ انتظام اس وقت جتنے بھی اسکول ہیں ان کی توثیق واپس لے لی گئی ہے اور انہیں 15 دن کے اندر اندر سیل کیا جائے گا۔

کشمیر میں جماعتِ اسلامی پر پابندی کب اور کیوں لگی؟

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے 28 فروری 2019 کو جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کو غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کی تھی۔

حکومت نے جماعتِ اسلامی پر ملک دشمن اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور اس پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی۔

وزارتِ داخلہ کے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جو ریاست کی اندرونی سلامتی اور عوامی نظم وضبط کے خلاف ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جماعتِ اسلامی کے عسکری تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ یہ تنظیم جموں و کشمیر سمیت دیگر مقامات پر انتہا پسندی اور عسکری کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی بھارت کے علاقے کے ایک حصے کی علیحدگی کے دعوے کی حمایت بھی کرتی ہے۔

علیحدگی پسندوں کی حمایت کا الزام

مزید کہا گیا تھا کہ جماعتِ اسلامی دہشت گردوں اورعلیحدگی پسند گروہوں کے اس مقصد کے لیے لڑنے کی حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہے جس سے بھارت کی علاقائی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

پابندی کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ جماعتِ اسلامی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے تاکہ منافرت کو ہوا دے سکے۔

جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد کرنے سے چندروز قبل پولیس نے اس کے سربراہ ڈاکٹر عبد الحمید فیاض، پارٹی کے ترجمان زاہد علی سمیت لگ بھگ دو سو ارکان کو گرفتار کیا تھا۔ اس کریک ڈاؤن پر استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد ‘مشترکہ مزاحمتی قیادت’ کی اپیل پر کشمیر میں ایک روزہ ہڑتال کی گئی تھی۔

پاکستان سے الحاق سے کی حمایت

جموں و کشمیر کی جماعتِ اسلامی پاکستان یا بھارت میں موجود جماعتِ اسلامی کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک الگ حیثیت رکھتی ہے۔

بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر میں جماعتِ اسلامی مذہبی، سیاسی اور سماجی محاذوں پر فعال رہی ہے ۔ جماعتِ اسلامی کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ وہ متنازع ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی ہے البتہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی کی بنیاد ریاست میں مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف شروع کی گئی عوامی جدوجہد کے دوران 1942 میں ڈالی گئی تھی اور یہ اسلامی اصلاح پسند تحریک میں پیش پیش رہی ہے ۔ اس کے بانی مولانا غلام احمد احرار، مولانا سعد الدین، مولانا مفتی محمد امین، مولانا حکیم غلام نبی، قاری سیف الدین اور مولانا سلیمان تھے۔

کشمیر کی متنازع حیثیت کے پیشِ نظر بھارت میں جماعتِ اسلامی نے 1952 میں کشمیر میں سرگرم جماعتِ اسلامی سے خود کو الگ کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا، جس کے بعد مولانا احرار اور غلام رسول عبد اللہ نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا نیا آئین مرتب کیا-

ریاست میں سیاسی کردار

جموں و کشمیر میں 1970 کی دہائی کے دوران جماعتِ اسلامی ایک فعال سیاسی تنظیم کے طور پر ابھری، جس کے بعد اس نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔

سال 1977 میں اس نے طلبہ اور نوجوانوں کے لیے اسلامی جمعیتِ طلبہ (آئی جے ٹی) کے نام سے ایک الگ شاخ قائم کی تھی – 90-1989 میں ریاست میں مسلح تحریک کے آغاز پر جماعتِ اسلامی اور اسلامی جمعیتِ طلبہ سے وابستہ کئی افراد نے بھی بندوق اٹھائی۔ ان میں محمد یوسف شاہ بھی شامل تھے جو بعد میں سید صلاح الدین کے نام سے مشہور ہوئے اور اس وقت عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور پاکستان نواز عسکری تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین ہیں۔

سال 1990 ہی میں جب حزب المجاہدین کے اُس وقت کے چیف کمانڈر ماسٹرمحمد احسن ڈار نے اسے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کا فوجی بازو قرار دیا تو جماعت اسلامی کے اُن رہنماؤں اور کارکنوں کو بھی فورسز کی سخت گیر کارروائی کی زد میں لایا گیا، جو مسلح تحریک سے براہِ راست وابستہ نہیں تھے۔ گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی سے وابستہ افراد کو جانی اور مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ انہیں حکومت کے حامی سابق عسکریت پسندوں پر مشتمل گروہوں نے بھی نشانہ بنایا۔

پابندیوں کا سامنا

جماعتِ اسلامی کشمیر میں تعلیمی محاذ پر خاصی سرگرم رہی ہے۔ اس نے بھارتی کشمیر میں کئی تعلیمی ادارے قائم کئے۔ تاہم 1975 میں اس پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد حکومتِ وقت نے ان تعلیمی اداروں کو تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد میں جماعتِ اسلامی نے فلاحِ عام ٹرسٹ قائم کرکے اس کے تحت تعلیمی سرگرمیاں بحال کیں۔ چند برس کے بعد جماعتِ اسلامی پر عائد پابندی ختم ہو گئی اور لگ بھگ تین دہائیاں پہلے جب ریاست میں شورش کا آغاز ہوا تو حکومت نے جن تنظیموں کو غیر قانونی قرار دیا تھا اُن میں جماعتِ اسلامی بھی شامل ہے۔

ایک بار پھر غیر قانونی تنظیم قرار

فروری 2019 میں اس پر تیسری مرتبہ پابندی عائد کی گئی، جس پر جموں و کشمیر کی کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدام قرار دیا تھا۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے اسے ان کے بقول تحریکِ آزادی کو دھونس، دباؤ اور طاقت کے ذریعے دبانے اور ریاست کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی بھارت کی حکومت کی کوششوں کا ایک حصہ کہا تھا۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی تھی۔ اس پر پابندی عائد کرکے حکومت نے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں