صحافی ارسلان خان بازیاب: سندھ رینجرز نے ان کی گرفتاری ظاہر کردی

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) کراچی کے علاقے کلفٹن سے لاپتہ ہونے والے صحافی، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور سماجی کارکن ارسلان خالد کی گرفتاری سندھ رینجرز نے ظاہر کرتے ہوئے انھیں تفتیش میں تعاون پر تنبیہ کر کے رہا کر دیا ہے۔

ترجمان سندھ رینجرز کی جانب سے جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ارسلان خان کو تفتیش میں تعاون کرنے پر تنبیہ کر کے رہا کر دیا گیا ہے۔

ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ محمد ارسلان کو ایک دہشت گرد گروپ کے ساتھ روابط کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ دوران تفتیش ملزم کے دہشت گرد گروپ سے مبینہ مالی معاونت لینے کا انکشاف ہوا۔

ترجمان رینجرز کے مطابق کلفٹن میں کارروائی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی تھی۔

جس کے بعد ارسلان خالد نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے خیریت سے گھر واپسی کی تصدیق کی۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ میں خیریت سے گھر واپسی آ گیا ہوں، اس مشکل وقت میں تمام افراد کی محبتوں، مدد اور کوشیشوں کا شکریہ، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ آپ سب کو بہت پیار۔‘

اس سے قبل ارسلان کی اہلیہ عائشہ نے بی بی سی کو بتایا کہ رات کے غالباً چار بجے تھے وہ اور بچے سو رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر اس کے بعد دس کے قریب اہلکار گھر میں داخل ہو گئے۔

’دس کے قریب اہلکار جن میں سے تین سادہ کپڑوں میں تھے گھر میں داخل ہوئے اور ارسلان کو بولا تم ریاست کے خلاف بات کرتے ہو۔۔۔ وہ کہتا رہا کہ میں قانون کی پیروی کرنے والا شہری ہوں لیکن وہ اس کو ساتھ لے کر چلے گئے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ سب کے چہروں پر سیاہ نقاب تھا، صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ انھوں نے ارسلان کو کہا کہ ’تم ریاست کے خلاف لکھتے ہو، تم نے پریشان کر کے رکھا ہے، پاکستان میں رہتے ہو اور یہاں رہ کر یہ سب کرتے ہو۔‘

’ارسلان نے جواب دیا کہ میں قانون کی پیروی کرتا ہوں لیکن انھوں نے اس کی ایک نہ سُنی۔‘

عائشہ کے مطابق ’اہلکاروں نے ارسلان کا موبائل فون لے لیا۔ اس کے بعد بیٹی کا فون بھی لیا اور پوچھا کہ لیپ ٹاپ کہاں ہے، کیا اسلحہ تو نہیں ہے۔ پھر ارسلان کو کہنے لگے کہ تم ہی ’اے کے 47‘ ہو نا ( یہ ارسلان کا ٹوئیٹر ہینڈل ہے۔)‘

ان کے مطابق اس کے بعد اہلکار ارسلان کو اپنے ساتھ نیچے لے گئے، جہاں کمپاؤنڈ میں ایک پجیرو گاڑی آئی، جس میں سول ڈریس (عام کپڑوں میں ملبوس) اہلکار بیٹھے تھے، ارسلان کو ساتھ بٹھایا جبکہ باقی اہلکار اپنی موبائل گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔

اس واقعے کے بعد سندھ رینجرز سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا تھا لیکن اس وقت انھوں نے اس پر کوئی مؤقف نہیں دیا تھا جبکہ ایس پی کلفٹن روحیل کھوسو نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے انھیں اس واقعے کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ روحیل کھوسو نے بتایا کہ ’میں نے تمام متعلقہ تھانوں سے معلوم کیا ہے، اُن میں سے کسی تھانے نے انھیں حراست میں نہیں لیا۔‘

عائشہ کے مطابق ارسلان ٹوئٹر پر سرگرم تھے۔ وہ بلاتفریق لاپتہ افراد اور مذہبی اقلیتوں کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ ’دوست احباب انھیں کہتے تھے کہ انھیں خیال رکھنا چاہیے۔ لوگوں کو سچ سننے کی عادت نہیں، وہ کہتا تھا کہ مجھے سے یہ بددیانتی نہیں ہو گی۔‘

’ارسلان کراچی کی آواز کو سپورٹ کرتے تھے‘

صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فواد حسن کا کہنا ہے کہ ارسلان کراچی کی آواز کو سپورٹ کرتے تھے۔ ’جو شہری لاپتہ ہیں، جو اسیر ہیں، وہ اُن کی معلومات رکھتے تھے اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی خبرگیری کرتے تھے۔‘

ارسلان کراچی میں گجر نالے سمیت دیگر علاقوں سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد بنائی گئی ’کراچی بچاؤ تحریک‘ میں بھی سرگرم رہے۔ اس تحریک کے رہنما خرم علی کے مطابق ارسلان ان کی تنظیم کے باقاعدہ رُکن نہیں تھے لیکن وہ اس مہم کو سوشل میڈیا پر سپورٹ کرتے تھے۔

خرم علی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’کچھ عرصے پہلے ارسلان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا آپ بہت زیادہ سچ لکھ رہے ہیں۔ ارسلان نے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ ضمیر کی عدالت میں مجرم ٹھہرنے کا ہے۔ سچ لکھنا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ دنیا کی ہر قید سے ضمیر کی قید زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر بھی ارسلان کی رہائی کے حوالے سے ٹرینڈ موجود ہے۔

ایوان بالا کے رکن سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ’جبراً اُٹھائے گئے ارسلان صاحب کی اہلیہ کا ویڈیو پیغام سنا۔ اُنھیں یہ بتایا گیا طیہ سوشل میڈیا پر بہت بولتے اور لکھتے ہیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’بولنا اور لکھنا جرم نہیں، جرم کسی شہری کو زبردستی اغوا اور گمشدہ کرنا ہے۔‘

سینیئر سیاستدان اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق چیئرمین افراسیاب خٹک نے کہا ہے کہ ’ارسلان خان کی جبری گمشدگی قابل مذمت ہے، کب تک مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ آئین و قانون کی اس خلاف ورزی پر سوتے رہیں گے؟ شہریوں کے حقوق کا کیا ہو گا؟‘

ارسلان خان کے ٹوئٹر پر حلقہ 245 پر ضمنی انتخابات پر ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بائیکاٹ کی حمایت بھی موجود ہے۔

ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی نے ٹویٹر پر ارسلان خان کو حراست میں لیے جانے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ارسلان خان کی گرفتاری کا نوٹس لیں اور ارسلان خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں