شمالی وزیرستان میں پولیو ٹیم پر حملہ، ایک ورکر، 2 پولیس اہلکار ہلاک

اسلام آباد (ڈی پی اے/اے پی/اے ایف پی) شمالی مغربی پاکستان کے ضلع شمالی وزیرستان میں ایک پولیو ویکسینیشن ٹیم پر کیے جانے والے خونریز حملے میں ایک پولیو ورکر اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ افغان سرحد کے قریبی علاقے میں یہ حملہ منگل اٹھائیس جون کو کیا گیا۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیو کے خلاف مقامی بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے والی اس ٹیم کے ارکان شمالی وزیرستان میں گھر گھر جا کر ویکسینیشن کر رہے تھے کہ نامعلوم مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ اس حملے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ حملہ شمالی وزیرستان کے سابقہ نیم خود مختار قبائلی علاقے میں ایک ایسے مقام پر کیا گیا، جو پاکستان کی افغانستان کے ساتھ قومی سرحد سے زیادہ دور نہیں اور ماضی میں مقامی طالبان اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے۔

اینٹی پولیو مہم ایک روز پہلے ہی شروع ہوئی تھی

حملے کا نشانہ بننے والی اینٹی پولیو ٹیم اس مہم کا حصہ تھی، جو اقوام متحدہ کی طرف سے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل سے ابھی کل پیر ستائیس جون کو ہی شروع ہوئی تھی۔ مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار شاہد علی خان کے مطابق پاکستان میں بچوں کو جسمانی طور پر معذور بنا دینے والی یہ بیماری ابھی تک پائی جاتی ہے اور شمالی وزیرستان کا شمار ان پاکستانی علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں اس مرض کے بچوں میں پائے جانے کا خطرہ ابھی تک بہت زیادہ ہے۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی قومی مہم کے ترجمان ذوالفقار باباخیل نے بتایا کہ ملک میں گزشتہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے دوران پولیو کا کوئی نیا کیس دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ پھر پچھلے تقریباﹰ دو ماہ کے دوران شمالی وزیرستان میں ہی اس بیماری کے کم از کم دس نئے کیسز دیکھنے میں آئے تھے۔

پولیو کا مرض اب دنیا کے صرف دو ممالک میں

پاکستان دنیا کے ان صرف دو ممالک میں سے ایک ہے، جہاں پولیو کی بیماری کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ان میں سے پاکستان کے علاوہ دوسرا ہمسایہ ملک افغانستان ہے۔

پاکستان میں گزشتہ تقریباﹰ ایک دہائی کے دوران سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ نئے پولیو کیسز 2014ء میں دیکھنے میں آئے تھے، جن کی تعداد 306 رہی تھی۔ اس کے بعد سے یہ تعداد ہر سال مسلسل کم ہوتی گئی تھی۔

پھر ماضی قریب میں تقریباﹰ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک کوئی ایک بھی نیا کیس رجسٹر نہ کیا گیا اور سال رواں کے دوران اب تک پاکستان میں پولیو کے دس نئے کیس رجسٹر کیے جا چکے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے حملوں کی وجہ

پاکستان میں دہشت گردوں کے القاعدہ نیٹ ورک یا مقامی طالبان سے قربت رکھنے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو کی مہم کے ارکان پر خونریز حملے بار بار دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسے حملوں میں اب تک درجنوں پولیو کارکن اور اس کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

خاص طور پر بچوں کو متاثر کرنے اور انہیں عمر بھر کے لیے جسمانی طور پر معذور بنا دینے والی اس بیماری کے خلاف ویکسینیشن کرنے والے کارکنوں پر عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے اس لیے کیے جاتے ہیں کہ ایسے شدت پسند عناصر کے مطابق یہ پولیو ٹیمیں ‘جاسوسی‘ کرتی ہیں اور بچوں کو ویکسین پلا کر ان کی ‘افزائش نسل کی جسمانی اہلیت‘ کو مبینہ طور پر ختم کر دیا جاتا ہے۔

شدت پسندوں کی یہ نام نہاد منطق بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، لیکن اسی کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں اینٹی پولیو ٹیموں کے بہت سے ارکان کی جان چلی جاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں