ہشام السید: حماس نے مغوی اسرائیلی شہری کی مبینہ ویڈیو جاری کردی

غزہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں بظاہر ایک اسرائیلی شہری کو دکھایا گیا جنھیں غزہ کی پٹی میں اغوا کیا گیا تھا۔

اس ویڈیو میں ہشام السید کو ایک بستر میں لیٹا دیکھا جا سکتا ہے اور وہ خاصے مرجھائے ہوئے لگ رہے ہیں اور انھوں نے چہرے پر آکسیجن ماسک پہن رکھا ہے۔ سنہ 2015 میں ان کے اغوا کے بعد سے انھیں پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

https://twitter.com/abyd_22/status/1541785209896583168?t=4qsEH7Gbrsb-l6lai7StLw&s=19

اسرائیلی وزیرِاعظم نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ ایک بیمار شخص کی ویڈیو جاری کرنا ‘قابلِ مذمت اور مایوس کن’ عمل ہے۔

بی بی سی کی جانب سے اس ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ ہشام السید ایک اسرائیلی فوجی ہیں لیکن اسرائیلی حکومت اور ان کا خاندان اس بات پر مصر ہے کہ وہ ذہنی امراض کے شکار ایک عام شہری ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے اس سے قبل ہشام السید کی ‘غیر قانونی حراست’ پر تنقید کی تھی اور ان کے مطابق ہشام السید کو آخری مرتبہ اپریل 2015 کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر غزہ کی پٹی میں داخل ہوتے دیکھا گیا تھا اور وہ اس سے قبل بھی یہاں داخل ہونے کی متعدد کوششیں کر چکے تھے۔

حماس کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں 34 سالہ ہشام السید جو اسرائیل کی بدو عرب اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو وینٹی لیٹر پر دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے پاس اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ شناختی کارڈ بھی پڑا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

ان کے کمرے میں ایک ٹی وی مانیٹر بھی دیکھا جا سکتا ہے جس پر رواں ماہ قطر میں ہونے والی اکنامک کانفرنس کی نیوز فوٹیج چل رہی ہے۔

اس کے علاوہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ نے ان کی صحت کے بارے میں مزید کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور صرف یہ کہا کہ ان کی صحت مزید ابتر ہو گئی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ان دو شہریوں میں سے ایک ہیں جنھیں حماس کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حراست میں لیا گیا ہے۔ حراست میں لیے گئے دوسرے شخص اویرا مینگسٹو ہیں۔

یہ دونوں دانستہ طور پر غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے تھے حالانکہ اسرائیل کی جانب سے اپنے شہریوں پر فسطینی علاقے میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

اس حوالے سے یہ گمان بھی کیا جا رہا ہے کہ ویڈیو جاری کرنے کا مقصد حماس کی جانب سے اسرائیل پر قیدیوں کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

دونوں اطراف سے قیدیوں کے تبادلے ماضی میں بھی کیے جا چکے ہیں۔ خاص کر سنہ 2011 میں جب اسرائیلی فوجی جیلاد شلیت کو اغوا کیا گیا تھا۔ ان کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کروایا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں