ایمن الظواہری کی ہلاکت: القاعدہ سربراہ کو پناہ دے کر طالبان نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی، امریکا

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو پناہ دے کر دوحہ معاہدے کی کھلے طریقے سے خلاف وزری کی ہے۔

غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ اور اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی ایمن الظواہری افغانستان میں ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں جو مسلح گروہ کے لیے 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بہت بڑا دھچکا ہے۔

انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کی جانب سے اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے کی ناکامی کے باوجود ہم افغان عوام کی انسانی امداد اور ان کے انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی حفاظت کرتے رہیں گے۔

دوسری جانب طالبان نے آج اعتراف کیا کہ امریکا نے ڈرون حملہ کیا تھا لیکن ہلاکتوں کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کا نام لیا جن کو امریکا پر 9/11 حملوں کا اہم منصوبہ ساز سمجھا جاتا تھا۔

وزارت داخلہ نے ڈرون حملے کی خبروں کی تردید کی تھی لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو کہا کہ ایسا اس لیے کہا گیا کیونکہ ڈرون حملے کی تحقیقات جاری تھیں۔

افغان شہری القاعدہ سربراہ کی موت پر حیران

دوسری جانب، افغانستان کے شہریوں نے القاعدہ کے سربراہ کے امریکی ڈرون حملے میں قتل پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو اس بات کا یقین ہی نہیں کہ ایمن الظواہری ان کے آس پاس چھپا ہوا تھا۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے دارالحکومت کے شہری 66 سالہ فہیم شاہ نے کہا کہ یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے۔

ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ 71 سالہ ایمن الظواہری شیر پور محلے میں ایک تین منزلہ عمارت کی بالکونی میں تھا تو اسی دوران اتوار کو صبح کے فوراً بعد اسے دو ہیل فائر میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔

شہری فہیم شاہ نے کہا کہ ماضی میں ہمیں ایسا پروپیگنڈہ سننے کو ملا تھا مگر کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی تھی، درحقیقت میں نہیں سمجھتا کہ القاعدہ سربراہ کو یہاں قتل کیا گیا ہے۔

کابل کے ایک اور شہری عبدالکبیر نے کہا کہ اس نے اتوار کی صبح حملے کی آواز سنی لیکن پھر بھی انہوں نے امریکا سے یہ ثابت کرنے کا مطالبہ کیا کہ کس کو مارا گیا ہے۔

کبیر نے کہا کہ انہیں (امریکا) کو لوگوں اور دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ہم نے اس آدمی کو مارا تھا اور یہ ثبوت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے کسی اور کو مارا اور اعلان کیا کہ یہ القاعدہ کا سربراہ ہے، مگر اور بھی بہت سے مقامات ہیں جہاں وہ چھپ سکتا ہے جیسا کہ پاکستان میں یا عراق میں چھپ سکتا ہے۔

اس حملے سے واشنگٹن اور طالبان کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے جیسا کہ طالبان نے معاہدے کے تحت افغانستان کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بننے سے روکنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے گزشتہ سال امریکی فوج کا وہاں سے انخلا ہوا تھا۔

یونیورسٹی کے طالب علم محمد بلال کا خیال تھا کہ ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک دہشت گرد گروپ ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ اپنے لیڈر کو افغانستان بھیجیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب طالبان کا سابقہ افغان فورسز کے ساتھ تنازع تھا تو اس وقت طالبان سمیت زیادہ تر گروپس کے رہنما یا تو پاکستان میں یا متحدہ عرب امارات میں رہتے تھے۔

تاہم، کابل کی گھریلو خاتون خانہ فریشتہ نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ وہ ایمن الظواہری کے قتل کے بارے میں جان کر حیران رہ گئی ہیں۔

خاتون نے کہا کہ یہ جان کر بہت تکلیف ہوئی کہ وہ یہاں رہ رہا تھا۔

ایک دکاندار نے بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دہشت گرد گروہ ہماری سرزمین میں داخل ہو سکتا ہے، اس سے استعمال کر سکتا ہے اور آسانی سے نکل سکتا ہے، ہمارے پاس اچھی حکومت نہیں ہے اور ہم اپنی، اپنی مٹی اور اپنی املاک کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں