بھارت میں مودودی اور سید قطب کی کتابیں نصاب سے خارج

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بر صغیر کے معروف عالم دین مولانا مودودی اور مصری اسلامی اسکالر سید قطب کی کتابوں کو نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ بعض سخت گیر ہندو قوم پرستوں نے ان کی کتابوں پر اعتراض کیا تھا۔

بھارت کے بعض ہندو قوم پرستوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب لکھا تھا، جس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بر صغیر کے معروف عالم دین مولانا ابو الاعلٰی مودودی اور مصری مسلم اسکالر سید قطب کی تعلیمات کو اپنے نصاب سے ہٹا دیا ہے۔

ہندو قوم پرستوں نے بھارتی یونیورسٹیوں میں ان مسلم اسکالر کی کتابیں پڑھانے پر اعتراض کرتے ہوئے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے لیے وزیر اعظم مودی کو خط لکھا تھا۔ ابھی تک صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محکمہ رابطہ عامہ سے وابستہ ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں اس فیصلے کی یہ کہہ کر تصدیق کی ہے کہ بہت سے پروفیسر اس کے مخالف تھے، تاہم وائس چانسلر کے احکامات کے بعد ایسا کرنا پڑا اور دونوں اسلامی مفکرین کی کتابوں کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کا کیا کہنا ہے؟

یونیورسٹی کے ایک افسر نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ اس تنازعے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب بعض ہندو اسکالرز نے مولانا مودودی اور سید قطب کے لٹریچر کو ’جہادی‘ قرار دیا اور میڈیا سے کھل کر کہا کہ انہوں نے اس پر پابندی کے لیے ایک خط لکھا ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان شافع قدوائی نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان ’’دونوں اسکالرز کی تعلیمات کو نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اور یہ یونیورسٹی میں کسی بھی تنازعہ سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ حالات بدل گئے ہیں۔ شاید جو بات پہلے پڑھانے کے قابل سمجھی جاتی تھی وہ اب اس قابل نہیں سمجھی جاتی ہے۔‘‘

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں حکومت اور انتظامیہ سے متعلق اسلامی نظریات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس سلسلے سید قطب اور ابوالاعلی مودودی نے اسلامی طرز حکومت پر جو نظریات پیش کیے ہیں وہ نصاب کا حصہ تھے۔

ڈی ڈبلیو اردو نے جب شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر محمد اسماعیل سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے انہوں نے مزاحمت کی تھی تاہم، ’’جب وائس چانسلر نے حکم دیا تو ہم نے ان کی کتابوں کو نصاب سے ہٹا دیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کا لٹریچر جہادی ہے جو تشدد پر اکساتا ہے۔ اس پر، ’’ہم نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کوئی ایک جملہ بھی دکھا دیں جو تشدد پر آمادہ کرتا ہو، تو وہ ان کی بات تسلیم کر لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے۔ ہم نے یہ بات یونیورسٹی حکام کو بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وائس چانسلر نے حکم دے دیا تو اسے ماننا پڑا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’بعض کی دلیل یہ ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک بھی ان کی سیاسی تعلیمات سے گریز کرتے ہیں، تو ہم نے انہیں یہ جواب دیا کہ مودودی اور سید قطب کی تعلیمات در اصل جمہوری اقدار پر مبنی ہیں، اور ان ممالک کی اشرافیہ حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں، اس لیے انہوں نے ایسا کیا ہے۔‘‘

ان سے جب یہ سوال کیا گیا فسطائیت اور نازی ازم جیسے معتوب سیاسی نظریات کو بھی پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، تاکہ اس کو سمجھا جا سکے تو پھر نصاب سے نکال دینے سے، تو فائدے کے بجائے اکیڈمک نقصان ہو گا؟ اس پر انہوں نے کہا ’’میرا بھی یہی خیال ہے تاہم ان حالات میں آخر کیا بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘

ہندو قوم پرستوں کا مطالبہ

بھارت میں دائیں بازو کے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل تقریباﹰ دو درجن افراد نے ایک کھلا مکتوب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا، ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں ملک اور قوم کے مخالف نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے۔‘‘

اس میں مزید لکھا گیا، ’’ہم اس خط پر دستخط کرنے والے تمام، آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ حکومتی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں، ڈھٹائی سے اسلامی جہادی نصاب کی پیروی کی جا رہی ہے۔‘‘

حالانکہ ان اس خط میں ان یونیورسٹیوں سے ایسے تعلیم نصاب کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جہاں مسلم طلبہ کی اکثریت ہے، تاہم ابھی تک اس پر پابندی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لگائی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں