ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کا علم نہیں تھا، افغان طالبان کا دعویٰ

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغان طالبان نے دعویٰٰ کیا ہے کہ اُنہیں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کا علم نہیں تھا۔ تاہم امریکی صدر کے اس دعوے کے مطابق کے اس حملے میں الظواہری ہلاک ہوئے ہیں، طالبان حکومت نے ہر پہلو سے اس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔

جمعرات کو طالبان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے جاری کیے گئے باضابطہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کےصدر جو بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک ڈرون حملے میں ایمن الظواہری مارے گئے ہیں۔ تاہم طالبان حکومت یہ واضح کرتی ہے کہ اُنہیں الظواہری کی کابل آمد یا قیام گاہ کے بارے میں علم نہیں تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان قیادت نے سیکیورٹی اور خفیہ اداروں کو یہ ہدایات جاری کی ہیں, وہ اس معاملے کی مفصل اور سنجیدہ تحقیقات کریں۔

بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ افغان سرزمین سے امریکہ سمیت کسی بھی ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے پر مکمل عمل پیرا ہیں، لہذٰا اس معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اس حملے کے ذریعے افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ کیا، لہذٰا ہم ایک بار پھر اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔

افغان طالبان نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امریکہ کی جانب سے دوبارہ کوئی ایسا اقدام کیا گیا تو نتائج کی ذمے داری بھی امریکہ پر ہی عائد ہو گی۔

خیال رہے کہ الظواہری کے خلاف کارروائی کے بعد امریکہ نے افغان طالبان کو تنبیہ کی تھی کہ وہ دوحہ معاہدے پر عمل پیرا رہیں۔

امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ طالبان کے پاس یہ انتخاب موجود ہے کہ وہ دنیا پر یہ ثابت کریں کہ وہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کو اپنی پناہ گاہیں بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ایمن الظواہری کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں میں ہوتا تھا۔ وہ نائن الیون کے حملوں کے دوران اسامہ بن لادن کا نائب بنا اور پھرسال 2011 میں امریکی انسداد دہشت گردی مشن کے دوران اسامہ کی ہلاکت کے بعد اس کے جانشین کے طور پر سامنے آیا۔

اماہرین اور حکام کے مطابق لظواہری امریکی عوام، مفادات اور قومی سلامتی کے لیے ایک فعال خطرہ تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں