ایمن الظواہری کی ہلاکت کے باوجود القاعدہ امریکہ پر حملے کا ارادہ رکھتی ہے، ایف بی آئی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے خبردار کیا ہے کہ اہم رہنما کی ہلاکت کے باوجود القاعدہ امریکہ پر بڑے پیمانے پر حملے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ڈائریکٹر ایف بی آئی کرسٹوفر رے کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے باوجود گروپ کی جانب سے امریکہ پر حملے کے امکان پر فکر مند ہیں۔

وائس آف امریکہ کے مسعود فاریور کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے سامنے جمعرات کو بیان دیتے ہوئے کرسٹوفر رے کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور داعش کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھی ”امریکہ میں بڑے پیمانے پر حملے کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔”

خیال رہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے اہم منصوبہ ساز القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری اتوار کی صبح کابل میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

رے سے یہ پوچھنے پر کہ آیا القاعدہ یا داعش موقع ملنے پر امریکہ پر حملہ کریں گی، رے کا کہنا تھا کہ ”جی، ہاں!”

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں زیادہ امکان ہے کہ القاعدہ اپنی کم ہوتی قیادت کے ساتھ مشرقی اور مغربی افریقہ جیسے خطوں میں اپنے ”بین الاقوامی ملحقہ گروہوں کو فروغ دینے اور چھوٹے پیمانے پر حملوں کی حمایت” کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔

ایمن الظواہری سے متعلق اپنے پہلے عوامی ریمارکس میں رے کا کہنا تھا کہ ”وہ حیران نہیں بلکہ مایوس تھےکہ القاعدہ کے سربراہ ایک سیف ہاؤس میں چھپے ہوئے پائے گئے جو مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک کے ایک سینئر رہنما کی ملکیت تھا۔”

خیال رہے کہ ایمن الظواہری نے اسامہ بن لادن کی 2011 میں امریکی کارروائی میں ہلاکت کے بعد القاعدہ کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور وہ ایف بی آئی کی سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں تھے۔ ان کو پکڑنے پر ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا۔

کابل میں امریکی ڈرون حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے طالبان پر 2020 کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، اس معاہدے میں طالبان نے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے والے کسی دہشت گرد گروہ کی جانب سےافغان سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا عہد کیا تھا۔

تاہم طالبان حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کابل میں ایمن الظواہری کی موجودگی سے لاعلم تھے۔

کمیٹی کی سماعت کے دوران ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے استفسار کیا کہ حقانی سیف ہاؤس میں الظواہری کی موجودگی سے کیا یہ مطلب لیا جائے کہ القاعدہ اور طالبان کے درمیان اب بھی تعلقات قائم ہیں؟ اس پر کرسٹوفر رے کا کہنا تھا کہ”کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔”

انٹیلی جنس کا خلا

الظواہری پر حملے نے کچھ مبصرین اور بائیڈن انتظامیہ کے حکام کے اس مؤقف کو تقویت بخشی ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کے بغیر بھی اس طرح کے انسداد دہشت گردی آپریشن جاری رکھ سکتا ہے۔

رے کا کہنا تھا کہ پھر بھی وہ افغانستان میں امریکی انخلا کے تناظر میں ”انٹیلی جنس معلومات اور ممکنہ نقصان” کے بارے میں فکر مند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لہٰذا ہمارے بڑھتے ہوئے انٹیلی جنس خلا میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور میں اس امکان کے بارے میں بھی فکر مند ہوں کہ ہم القاعدہ کو دوبارہ فعال ہوتے اور داعش خراساں کو سیکیورٹی کے بگڑتے ہوئے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیکھیں گے۔ اور میں دہشت گردوں کے بارے میں فکر مند ہوں، بشمول یہاں امریکہ میں جو اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں