لوئر دیر میں ممبر صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی کی گاڑی پر فائرنگ، 4 افراد ہلاک، ملک لیاقت سمیت 3 زخمی

پشاور (ڈیلی اردو/اے پی) صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلح افراد نے فائرنگ کر کے دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کو قتل کر دیا۔ اس حملے کا ہدف سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے ایک رکن صوبائی اسمبلی تھے، جو شدید زخمی ہو گئے۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے اتوار سات اگست کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا اس خونریز حملے میں مسلح افراد پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت خان کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ ہفتہ چھ اگست کو رات گئے کیے گئے اس حملے میں صوبائی پارلیمان کے اس رکن کی جان تو بچ گئی تاہم وہ زخمی ہو گئے۔

چار افراد کی موت کی وجہ بننے والے اس حملے کے بعد نامعلوم حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ملک لیاقت خان اور باقی تینوں زخمی اس وقت پشاور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

حملہ لوئر دیر میں کیا گیا

پولیس نے بتایا کہ صوبے میں حکمران سیاسی جماعت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اس رکن پارلیمان پر یہ حملہ ضلع لوئر دیر میں میدان کے علاقے میں کیا گیا۔ فوری طور پر کسی بھی مسلح گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ پولیس کا خیال ہے کہ اس حملے میں کوئی عسکریت پسند گروپ بھی ملوث ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان، خصوصاﹰ جنوب مغربی پاکستان میں کئی ممنوعہ عسکریت پسند گروہ فعال ہیں۔

پولیس اہلکار زر بادشاہ نے بتایا کہ اس حملے میں جو چار افراد مارے گئے، ان میں سے دو پولیس اہلکار تھے اور باقی دو ملک لیاقت خان کے قریبی رشتے دار۔ ان میں سے ایک اس رکن پارلیمان کے بھائی تھے اور دوسرے ان کے ایک بھتیجے۔ یہ تمام افراد ہفتے کی رات ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپس جا رہے تھے۔

حملے کی جگہ صوفی محمد کی طاقت کا گڑھ

صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں جس جگہ پی ٹی آئی کے اس رکن پارلیمان کو نشانہ بنانے کے لیے مسلح افراد نے فائرنگ کی، وہ جگہ ماضی میں صوفی محمد نامی ایک مسلم مذہبی رہنما کی طاقت کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔ صوفی محمد کا انتقال ہو چکا ہے۔

صوفی محمد نے اس علاقے میں 1990ء کی دہائی میں اسلام کی اپنی انتہائی سخت گیر تشریحات کی وجہ سے کافی زیادہ شہرت حاصل کر لی تھی۔ بعد ازاں اسی مذہبی رہنما نے اپنے کئی پیروکاروں کو افغانستان بھی بھیجا تھا۔ افغانستان میں یہ جنگجو طالبان کی طرف سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجی دستوں کے خلاف لڑتے رہے تھے۔

بعد ازاں خیبر پختونخوا کا یہی علاقہ 2009ء تک واضح طور پر پاکستانی طالبان کے زیر اثر بھی رہا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں