اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم ‘اسلامک جہاد’ کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق، 44 ہلاکتیں

غزہ + تل ابیب (ڈیلی اردو/وی او اے) مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ ‘اسلامک جہاد’ کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔

مصر کے انٹیلی جنس حکام کا خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کو بتانا تھا فریقین کے درمیان جنگ بندی کا آغاز اتوار کی شب ساڑھے 11 بجے سے ہوا ہے جب کہ فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف مزید حملے نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اسرائیل نے بھی تصدیق کی ہے کہ اتوار کی شب جنگ بندی ہو گئی ہے تاہم اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

چین، فرانس، آئرلینڈ، ناروے اور متحدہ عرب امارات نے غزہ میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت کے لیے پیر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے۔

اسرائیل اور ‘اسلامک جہاد’ کے درمیان تین روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 15 بچے بھی شامل ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت نے فلسطینیوں کی ہلاکت اور 300 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کا ذمہ دار ’اسرائیلی جارحیت‘ کو قرار دیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران مرنے والے کم از 9 افراد کی اموات کا وہ ذمے دار نہیں ہے۔

واضح رہے کہ فریقین کے درمیان حملوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب اسرائیل نے ‘اسلامک جہاد’کے ایک سینئر اہلکار کو گزشتہ ہفتے حراست میں لیا تھا جب کہ ایک 17 سالہ نوجوان بھی ہلاک ہوا تھا۔ بعدازاں اسلامک جہاد نے دھکمی دی تھی کہ وہ اس کا بدلہ لے گا۔

جمعے کو اسرائیل نے غزہ پر فضائی کارروائی کی جس کے نتیجے میں اسلامک جہاد کے ایک سینئر کمانڈر مارے گئے۔ بعدازاں عسکری تنظیم نے اسرائیل کی جانب لگ بھگ 600 میزائل فائر کیے جن میں سے بیشتر میزائل اسرائیل نے اپنے آئرن ڈوم سسٹم کی مدد سے فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے تھے۔

اس لڑائی کے دوران غزہ کی پٹی کے قریب بسنے والے اسرائیلی شہریوں نے گزشتہ تین روز دھماکوں کی گونج میں گزارے۔

عدیلی ریمر غزہ بارڈر سے ایک کلو میٹر دور نیرم کے علاقے میں رہتی ہیں۔ انہوں نے تین روز کے دوران ہونے والی لڑائی سے متعلق بتایا کہ یہ بہت خوف ناک تھا۔ گھر سے باہر جانا بھی خوف ناک تھا۔ ان کے بقول، “ہم کنکریٹ کے محفوظ کمروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں لیکن کوئی بھی اس طرح کی چیزوں کا عادی نہیں ہوتا۔”

اسرائیل کے تجزیہ کار جنرل ایٹن ڈینگوٹ کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان لڑائی تھم گئی ہے لیکن اس تنازع میں اگر فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے مداخلت کی تو لڑائی مزید بڑھ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلیوں کے نقطۂ نظر سے وہ سمجھتے ہیں حماس نے اس تنازع سے دوری اختیار کر رکھی ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ اس نے جنگ بندی کی بھی حمایت کی ہے اور لڑائی میں شامل ہونا نہیں چاہتی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 روز تک لڑائی جاری رہی تھی جس میں متعدد ہلاکتیں اور کئی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں