مصر کے ایک چرچ میں آگ لگنے سے 41 افراد ہلاک، 55 زخمی

قاہرہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) مصر کی وزارتِ صحت کے مطابق الجیزہ شہر کے ضلع امبابا کے ابو سفین چرچ میں آتش زدگی کے باعث کم سے کم 41 افراد ہلاک جبکہ 14 زخمی ہو چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں اور ان میں سے اکثر کی ہلاکت بھگدڑ کے باعث بتائی جا رہی ہے۔

سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اتوار کو کاپٹک ابو سفین چرچ میں عبادت کے لیے پانچ ہزار افراد جمع تھے جب اچانک آتش زدگی ہوئی جس کی وجہ ابتدائی طور پر الیکٹرک خرابی بتائی گئی ہے، تاہم اس کی اصل وجہ تاحال واضح نہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق اس آتش زدگی کے باعث داخلی راستے بلاک ہو گئے جس کے بعد عبادت گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ آگ بھجانے والی سروسز کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔

تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے امبابا کے علاقے میں ایک قریبی چرچ میں فادر فرید فاحمی نے بتایا کہ آتش زدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’بجلی گئی ہوئی تھی اور وہ (چرچ میں) جنریٹر استعمال کر رہے تھے۔ جب بجلی آئی تو اس کے باعث اوورلوڈ ہو گیا۔‘

وہاں موجود عبادت گزراوں نے آتش زدگی کے بعد کے لمحات کے حوالے سے تفصیلات بتائی ہیں۔ روئٹرز سے بات کرتے ہوئے یاسر منیر کا کہنا تھا کہ ’لوگ تیسری اور چوتھی منزل پر اکٹھے ہو رہے تھے اور ہمیں دوسری منزل سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔

’لوگ جلدی سے نیچے کی طرف بھاگے لیکن سیڑھیوں پر بھگدڑ مچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد ہمیں دھماکے کی آواز آئی اور پھر کھڑکیوں سے آگ شعلے نکلتے دکھائی دیے۔‘ انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی بیٹی کیونکہ سب سے نچلی منزل پر تھے، اس لیے وہ جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے کہا کہ ’ہلاک ہونے والوں کے اہلِخانہ کے ساتھ اظہارِ تعزیت کرتے ہیں، یہ افراد خدا کی عبادت کی جگہ پر ہلاک ہو کر اسی کے پاس چلے گئے۔‘

پرازیکیوٹر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آتش زدگی کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک ٹیم کو چرچ بھیجا گیا ہے۔

الجیزہ دریائے نیل سے کچھ فاصلے پر واقع ہے اور یہ گریٹر قاہرہ شہر کا حصہ ہے۔

کاپٹک مسیحی مصر کی 10 کروڑ 30 لاکھ کی آبادی میں سے ایک کروڑ افراد پر مشتمل ہیں۔

اس کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ انھیں ملک میں امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے اور وہ عام زندگی میں وہ کردار ادا نہیں کرتے جو ان کی تعداد کے شایانِ شان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں