کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان کے دارالحکومت کابل سے امریکی فلم ساز اور ان کے افغان مترجم کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ دوحہ میں قائم افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کی رہائی کے لیے طالبان حکام سے بات کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق بدھ کو پیش آنے والے اس واقعے میں امریکی فلم ساز آئیور شیرر اور ان کے افغان ترجمان فیض بخش کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے کابل پولیس اور طالبان ترجمان کو پیغام بھیجا گیا، لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے صحافیوں پر تشدد اور اُنہیں حراست میں لیے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی صحافی انس ملک اور ان کے دو افغان معاونین کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا، تاہم پاکستانی سفارت خانے کی مداخلت کے بعد 24 گھنٹوں بعد انس ملک کو رہا کر دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر امریکی فلم ساز کے حوالے سے متضاد خبریں گردش کر رہی ہیں۔
برطانوی اخبار ‘گارڈین’ سے منسلک صحافی ایما گراہم ہیریسن نے اس حوالے سے ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ بدھ کو کابل میں شیرپور کی مرکزی شاہراہ پر فلم بندی کے دوران حراست میں لیے جانے اور آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بعد دو صحافیوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
Two journalists are still out of contact after being detained and blindfolded for filming on the main Sherpur road in Kabul yesterday.
American Ivor Shearer and his Afghan colleague.
They had all accreditation to work as journalists in Afghanistan
— Emma Graham-Harrison (@_EmmaGH) August 18, 2022
اُنہوں نے مزید لکھا کہ دونوں صحافی کابل میں کام کرنے کے حوالے سے تمام دستاویزات رکھتے ہیں۔
ایک اور صحافی ہوان کارلوس نے ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ امریکی فلم میکر اور ان کے افغان معاون کو کابل میں طالبان کے انٹیلی جنس ادارے نے گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتاری کے بعد ان کے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں، ہتھکڑی لگائی اور موبائل فون ضبط کر لیے گئے۔
American filmmaker Ivor Shearer and his Afghan fixer Faizullah Faizbakhsh have been arrested in #Kabul a couple of hours ago by the #Taliban NDS. They were blindfolded, handcuffed and their phones confiscated.@CPJ_Eurasia @CPJAmericas @freepress
— Juan Carlos (@photojuancarlos) August 17, 2022
یاد رہے کہ شیر پور کابل کے وسط میں واقع وہ علاقہ ہے جہاں 31 جولائی کو امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد طالبان نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔
شیرپور کو جانے والے تمام راستوں پر اب بھی طالبان کے اہل کار دکھائی دیتے ہیں اور اس علاقے میں تصاویر یا ویڈیو بنانے سے روکتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے تاحال ایمن الظواہری کے کابل میں رہنے یا مارے جانے کی بابت کوئی معلومات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ان کی تحقیقات جاری ہیں۔
نیشنل پبلک ریڈیو سے منسلک صحافی ضیا حدید نے ٹویٹ کی کہ ایک امریکی اور افغان صحافی کو کابل یونیورسٹی میں فلم بندی کے دوران حراست میں لے لیا گیا۔
An American & Afghan journalist can't be reached after they were detained for filming in Kabul yesterday. They were accredited to work. They should be allowed communications with their families and they should be swiftly released. @CPJAsia, please take note, thank. you.
— Diaa Hadid ضياء حديد (@diaahadid) August 18, 2022
کابل میں مقیم صحافی حجت اللہ مجددی نے امریکی صحافی اور ان کے افغان ساتھی کی حراست کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ بدھ کو کابل میں پیش آیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو حراست میں لیے جانے اور تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
حجت اللہ مجددی کے مطابق ان کا شروع دن سے طالبان سے یہی مطالبہ تھا کہ صحافیوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ایک کمیشن ترتیب دیا جائے جہاں ان کو درپیش مشکلات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔ لیکن تا حال وہ کمیشن نہیں بن سکا۔
اس وقت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کا نمبر 156 ہے۔ صحافتی برادری کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے بعد کافی ادارے بند ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں صحافی بے روزگار ہوگئے ہیں۔
حجت اللہ مجددی کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں 544 صحافتی اداروں میں سے 219 ادارے بند ہو گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں تقریبا 12 ہزار صحافیوں میں سے سات ہزار صحافیوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا۔
ان کے بقول ان میں دو ہزار سے زائد خواتین صحافیوں کو بھی اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔
کابل میں مقیم افغان صحافی مینہ حبیب کا کہنا ہے کہ صحافی ہر دور میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ طالبان سے قبل بھی انہیں مکمل آزادی حاصل نہیں تھی، خاص کر خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجز پر پہلے بھی غور نہیں کیا جاتا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طالبان حکومت میں بہت سارے ایسے موضوع ہیں جہاں صحافیوں کو کوریج کی اجازت نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں خواتین کی جانب سے کابل میں کیے گیے ایک احتجاجی مظاہرے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس مظاہرے کی کوریج کے دوران طالبان اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ہنگامہ ہوا اور ان کا پاؤں زخمی ہوا۔
ااُنہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کے حقوق، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے کیے جانے والے مظاہروں پر پابندی عائد ہے۔
مینہ حبیب کا مزید کہنا تھا کہ طالبان دور میں بہت سے ادارے بند ہو چکے ہیں جس کے بعد صحافیوں کو اقتصادی مشکلات درپیش ہیں۔ اقتصادی حالات اور آزاد صحافت کو درپیش مسائل کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں افغان صحافی اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔