پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے 18 سائنسدان بیرون ممالک ٹریننگ حاصل کےبعد روپوش

اسلام آباد (عاطف عباس) پبلک اکائونٹس ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ سکالر شپ پر جانے والے پاکستان زرعی ریسرچ کونسل کے 18 زرعی سائنسدان امریکا و یورپ ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد غائب ہوگئے۔ جبکہ وزارت کا ریکارڈ وزارت کو تحلیل کرنے کے دوران کھڑکیوں سے پھینک کر ضائع کر دینے والے انکشافات نے سب کو ششدر کر دیا اور 16 سال بعد بھی انکے شناختی کارڈ سے انکے گھروں کا پتہ نہ چلایا جا سکا جبکہ کروڑوں روپے کی مبینہ بدعنوانیوں میں ملوث پاکستان آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے سابق ایم ڈی ڈاکٹر وقار کے خلاف پبلک اکائونٹس ذیلی کمیٹی نے فوجداری کارروائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے رپورٹ 2 ماہ میں طلب کر لی، کمیٹی نے ڈاکٹر وقار کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور ریٹائرڈ کر دینے والے پرنسپل اکائونٹنگ آفسیر کو بھی طلب کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پبلک اکائونٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز کنونئیر کمیٹی رانا تنویر کی زیر صدارت ہوا اجلاس میں وزارت نیشنل فورڈ سیکیورٹی کے مالی سال 1999 تا 2009 تک کے آڈت اعتراضات کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2000 پاکستان زرعی ریسرچ کونسل کے 26 سائنسدان اعلی ٰتعلیم وتربیت کے لیے امریکا، اسٹریلیا اور نیوزی لینڈ گئے مگر وہاں جا کر غائب ہو گئے، جس سے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوا جبکہ اس حوالے سے ان کے ضمانت کنندہ اور ان کی جانب سے دیے گئے ایڈریسز غلط ہیں۔

پی اے آر سی حکام نے مزید بتایا کہ بیرون ملک جانے والوں میں سے 4 سائنسدان واپس آ گئے، 5 مر گئے ہیں جبکہ 18 سائنسدانوں کا کوئی علم نہیں ہے ان کے ضمانت کنندگان کی جانب سے دیے گئے گھر کے پتے ہی جعلی ہیں جس پر ممبر کمیٹی ریاض فیتانہ نے کہا کہ کیا شناختی کارڈ اور پاسپورٹس سے ان کے گھروں کے ایڈریسز معلوم نہیں کیے جا سکے ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ کیا انکو لیگل نوٹسز بھیجے گئے ہیں جس پر حکام نے بتایا کہ 2016 میں انکو لیگل نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ 2002 کا معاملہ ہے اور 14 سال بعد آپ نے نوٹسز بھیجے، کنونئیر کمیٹی نے کہا کہ یہ بڑی زیادتی ہے جو زمہ دار ہیں انکے خلاف ایکشن ہونا چاہیے، کنونئیر کمیٹی نے کہا کہ ذمہ داروں کاتعین کر کے ان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے۔

اجلاس می پاکستان سیڈ آئل ڈویلپمنٹ بورڈ کے سابق ایم ڈی ڈاکٹر وقار کے دور کی مبینہ بدعنوانیوں کے آڈٹ اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2002 میں 28 سو میٹرک ٹن سویا بین کا خرد برد کیا گیا جس کاریکارڈ نہ مل سکا۔

وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے حکام نے بتایا کہ جب وزارت کو تحلیل کیا گیا تو اس وزارت کا بہت سا ریکارڈ ادھر ادھر ہو گیا۔

وزارت کے حکام نے انکشاف کیا کہ انکوائری پر معلوم ہو ابہت سا ریکارڈ کھڑکیوں سے پھینک کر ضائع کر دیا جس پر سب ششدر رہ گئے حکام نے بتایا زیادہ تر ریکارڈ وہی پھینکا گیا جو خلاف تھا۔

ریاض فتیانہ نے کہا کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریکارڈ کیسے ضائع ہو گیا جس پر حکام نے کہ آخری کوشش کر لیتے ہیں مل گیا تو ٹھیک ہے، اڈ ٹ حکام نے بتایا کہ 1996/97 میں سویا بین درآمد کیا گیا جبکہ 550 زرعی آلات بھی اس دوران لیے گئے جو غائب کر دیے گئے 2004 میں کمیٹی بنائی گئی مگر ہم کور پورٹ نہ مل سکی، اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر سویا بین کاشت کی گئی جو کہ 212 ایکڑ پر کاشت کی گئی، یہ کاشت پلان میں 5 ہزار ایکڑ پر ہونی تھی۔ قومی خزانے کو 3 کروڑ کا نقصان ہوا۔

وزارت کے حکام نے بتایا کہ ساری بے ضابطگیاں ایک ہی شخص کے دور میں ہوئی ہیں جس پر ریاض فتیانہ نے کہا کہ ان کا نام بتایا جائے جس پر حکام نے کہا کہ ڈاکٹر وقار ملک تھے۔ 2004 میں ان کے خلاف پی اے سی نے کارروائی کی ہدایت کی مگر کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ جس پر ممبر کمیٹی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ 2004 سے 2004 تک پرنسپل اکاونٹگ افسران آئے لیکن کوئی کارروائی نہ کی گئی، کمیٹی نے 2016 کے دور کے پرنسپل اکائونٹنگ افسر کو بھی طلب کر نے کی ہدایت کر دی۔

کمیٹی ممبران نے کہا کہ ڈاکٹر وقار کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے ۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ سویا بین کے ذخیرہ کے لیے گودام بغیر ٹینڈرنگ کے لیے یہ معاملہ بھی 2004 میں آیا جب ایم ڈی ڈاکٹر وقار ایچ ملک تھے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کے اعتراضات کی ٹوٹل اماونٹ بھی کمیٹی کو پیش کی جائے۔

کنونیر کمیٹی نے کہا کہ لگتا ہے اس وقت کے سیکرٹری ان کے ساتھ ملے تھے کنونئیر کمیٹی نے جامع تحقیقات اور نیب سے اس متعلق رپورٹ طلب کرکے فوجداری مقدمے کی ہدایت کر دی۔ نیب حکام نے کہا کہ وزارت کو ہدایت کی جائے کہ اس حوالے سے ہمیں تمام شواہد اور ثبوت بھی فراہم کیے جائیں۔ کیونکہ بغیر ثبوتوں کے ذمہ داری ڈالنا مشکل ہوتا ہے۔ کیس ہمیں بھیج دیے جاتے ہیں لیکن ریفر نہیں کیے جاتے،

ممبر کمیٹی راجہ پرویزاشرف نے کہا کہ 2004 میں انکو ملازمت سے برطرف کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکو ملازمت سے برطرف نہ کیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ جنہوںنے انکو برطرف کرنے کے بجائے ریٹائر کیا انکو بھی طلب کیا جائے۔ کنونئیر کمیٹی نے نیب حکا م کو ہدایت کی کہ جو رپورٹ آپ نے بنائی تھی وہ بھی پیش کریں، اور تھوڑی سی توجہ ادھر بھی دیں جس پر سب کھلکھلا اٹھے، اجلاس آئندہ میٹنگ تک ملتوی کردی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں