سی این این نے ایرانی صدر کے ساتھ انٹرویو کیوں منسوخ کردیا؟

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) معروف امریکی صحافی کرسٹیئن امان پور کے ساتھ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا نیویارک میں ایک انٹرویو طے تھا۔ تاہم ایرانی صدر نے شرط یہ رکھ دی کہ وہ اسکارف پہن کر آئیں، تبھی وہ ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

معروف امریکی صحافی و تجزیہ کار کرسٹیئن امان پور نے 22 ستمبر جمعرات کے روز بتایا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے انٹرویو کے لیے یہ شرط رکھ دی کہ وہ اسکارف پہن کر آئیں، اس لیے انہوں نے مقررہ انٹرویو منسوخ کر دیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کسی بھی سابق صدر نے ایران سے باہر انٹرویو کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی۔ واضح رہے کہ ایران میں حجاب کے حوالے سے ہی آج کل ہنگامہ آرائی کا ماحول ہے۔ 

امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ رئیسی کے ایک معاون نے انہیں بتایا کہ یہ ”ایران کی موجودہ صورتحال” کی وجہ سے ہے۔ ایران میں حجاب سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لی گئی ایک خاتون کی موت کی وجہ سے، ان دنوں ہنگامے جاری ہیں۔

22 سالہ مہسا امینی کو اسکارف نہ پہننے الزام میں اخلاقی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور بعدمیں پولیس کی حراست میں ان کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے خلاف پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے، جس میں اب تک ایک درجن بھی زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

امان پور نے کیا کہا؟

امریکی میڈیا ادارے سی این ایس سے وابستہ معروف ٹی وی اینکر امان پور نے کہا کہ وہ بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایرانی صدر سے انٹرویو کے لیے تیار تھیں، تبھی ان کے ایک معاون نے بالوں کو ڈھانپنے پر اصرار کیا۔

انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، ”میں نے شائستگی سے انکار کر دیا۔ ہم نیویارک میں ہیں، جہاں ہیڈ اسکارف کے حوالے سے کوئی قانون یا روایت نہیں ہے۔” کرسٹیئن امان پور کے والد ایرانی تھے جبکہ وہ برطانیہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا، ”میں نے اس جانب اشارہ بھی کیا کہ جب کبھی بھی میں نے ایران سے باہر انٹرویو کیا، تو کسی بھی سابق ایرانی صدر نے اس طرح کی کسی ضرورت پر زور نہیں دیا۔ میں نے بتا دیا کہ میں اس غیر معمولی اور غیر متوقع شرط سے اتفاق نہیں کر سکتی۔”

اس حوالے سے معروف صحافی نے اپنی ایک تصویر بھی پوسٹ کی، جس میں وہ سر پر بغیر اسکارف کے اس خالی کرسی کے سامنے بیٹھی ہیں جس پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی انٹرویو کے لیے بیٹھے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ سخت گیر عالم ابراہیم رئیسی کے ایک معاون نے انہیں بتایا کہ وہ ”ایران کے حالات” کی وجہ سے سر پر اسکارف پہننے کے لیے اصرار کر رہے ہیں۔

حجاب پر ہنگامہ آرائی

اخلاقیات سے متعلق ایرانی پولیس (ارشاد) نے مہسا امینی کو گزشتہ ہفتے اس وقت گرفتار کیا تھا، جب انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا۔ ایران میں لباس سے متعلق ضوابط کے تحت خواتین کو سر ڈھانپنا ضروری ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ دوران حراست امینی گر گئیں اور انہیں اسپتال لے جایا گیا۔ تاہم طبی عملے نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ پولیس نے امینی کے ساتھ زیادتی یا بدسلوکی کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

لیکن مہساامینی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیماری کی ایسی کوئی علامت نہیں تھی اور جب انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ پوری طرح سے صحت مند تھیں۔ پولیس نے اس حوالے سے کلوز سرکٹ ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں امینی کو اس وقت گرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب وہ تھانے میں موجود تھیں۔

مہسا امینی ایک کرد ہیں اور ان کی موت کے خلاف گزشتہ ہفتے اس وقت بڑے پیمانے مظاہرے شروع ہو گئے جب مغربی ایران میں ان کے آبائی علاقے ساقیز میں انہیں دفن کیا جا رہا تھا۔ مظاہرین نے کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے اور ڈمپروں کو آگ لگا دی۔ اس پر پولیس نے متعدد گرفتاریاں کیں اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں پر تشدد ہجوم پر پولیس کی فائرنگ سے اب تک ایک درجن سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس دوران ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے نیو یارک میں ایک بار پھر سے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے کی آزادانہ تفتیش کی جائے گی۔

اس سے قبل انہوں نے امینی کے اہل خانہ سے بات چیت کی تھی اور مکمل تحقیقات کا وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں عدالتی اور پارلیمانی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں