سینیٹ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس: سوات میں سیکیورٹی کی صورتحال قابو میں ہے

اسلام آباد (ڈیلی اردو) سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ سوات میں سیکیورٹی کی صورتحال کنٹرول میں ہے اور وہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ منظم ہونے کی خبریں مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق کمیٹی کو یقین دلایا گیا کہ ریاست کی رٹ سب سے اہم ہے اور امن و امان کی صورتحال قابو میں ہے’۔

یہ بات کمیٹی کی جانب سے سوات میں سیکورٹی کی صورتحال پر ان کیمرہ بریفنگ کے بعد جاری ایک بیان میں کہی گئی جس کی صدارت سینیٹر مشاہد حسین نے کی۔

ٹی ٹی پی کے متعدد جنگجو جون اور جولائی میں افغانستان سے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران واپس آئے تھے، واپس آنے والے عسکریت پسندوں کو پہلی مرتبہ اگست کے شروع میں سوات کے علاقے دیر میں دیکھا گیا جب انہوں نے ایک فوجی افسر اور ایک پولیس اہلکار کو یرغمال بنایا تھا۔

بعدازاں دونوں کو مقامی عمائدین کے ساتھ بات چیت کے بعد رہا کردیا گیا تھا، اس کے بعد سے علاقے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات کی اطلاعات ہیں۔

حالیہ مینگورہ بم حملے میں امن کمیٹی کے سابق رکن ادریس خان سمیت 8 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جس سے سوات میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ طاقت حاصل کرنے کے خدشات بڑھے۔

ٹی ٹی پی کی واپسی کے اثرات خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے ہیں۔

سینیٹ کمیٹی کی کارروائی سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ بریفنگ میں سیکیورٹی حکام نے ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ‘مبالغہ آرائی’ قرار دیا۔

ذرائع نے حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ سوات میں دہشت گردی کے تقریباً چار یا پانچ واقعات ہوئے ہیں، لیکن ان تمام کا تعلق ٹی ٹی پی سے نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجرموں کا سراغ لگا کر پکڑ لیا گیا ہے اور خاص طور پر مالاکنڈ پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے کردار کی تعریف کی۔

ذرائع کے مطابق سیکیورٹی حکام نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے کہ ’ٹی ٹی پی کے مسلح افراد‘ کو امن مذاکرات کے دوران طے پانے والی کسی سمجھوتے کے تحت افغانستان میں ان کے محفوظ ٹھکانوں سے وطن واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 450 عسکریت پسندوں کو اپنے ہتھیاروں سمیت واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہیں پہاڑیوں میں ہتھیار رکھنے کی اجازت تھی، لیکن انہیں غیر مسلح ہو کر اپنے گھروں میں جانا تھا۔

جب یہ رپورٹیں پہلی بار منظر عام پر آئیں تو دعویٰ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کرنے والوں نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر عسکریت پسندوں کو ان کے گھروں کو جانے کی اجازت دی تھی۔

تاہم ذرائع نے بتایا کہ حکام نے واضح کیا ہے کہ ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں تھا اور چند عسکریت پسند پاک افغان سرحد کے بغیر باڑ والے حصوں میں گھس آئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اب کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات نہیں ہو رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں