پاکستان: مذہبی جماعتیں ٹرانس جینڈر ایکٹ بل 2018 کے خلاف

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان میں ایک مذہبی پارٹی کی جانب سے ٹرانس جینڈرز کے حقوق کا تحفظ کرنے والے قانون کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔ مخالفین کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون ہم جنس پسندوں کی شادی کی اجازت دے گا۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ 2018 کے بابت ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے، جو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرے گا اور ان کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک اور ہراسانی کے واقعات کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ 2018 پاکستان میں انفرادی طور پر لوگوں کو مرد، عورت یا دونوں جنسوں کے امتزاج کو تمام سرکاری دستاویزات پر ان کی شناخت باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہونے کا حق دیتی ہے۔ ان کی یہ شناخت پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور تمام تعلیمی اسناد میں لکھی جا سکے گی۔

اگرچہ یہ ایکٹ مئی 2018 میں ملکی پارلیمان میں منظور کیا گیا تھا تاہم حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ ناقدین نے اس بل میں موجود ایک مخصوص شق کی مخالفت کی ہے جس کے مطابق ایک ٹرانس جینڈر شخص کو اس کے کہنے کے مطابق مرد یا عورت کی حیثیت سے پہچانے جانے کا حق حاصل ہو گا۔

مذہبی جماعت کی جانب سے درخواست دائر

کچھ علما کی جانب سے اس شق کو مخالفت کا سامنا ہے۔ پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ یہ شرعی کورٹ سول کورٹ سے الگ ہے جو ملک میں لاگو ہونے والے قوانین کی جانچ پڑتال کرتی ہے کہ یہ قوانین اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔

مشتاق احمد خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہو کہا کہ جس شق میں ٹرانس جینڈر درخواست دہندگان کو ایک اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مخصوص جنس کا بتائیں اس میں ترمیم کا فیصلہ میڈیکل بورڈ کے پاس جانا چاہیے۔انہوں نے کہا، ”اس ایکٹ میں جنسی تبدیلی کا اختیار دینا ایک متنازعہ عمل ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”گزشتہ سال اکتوبر کے اوائل میں ہم نے سینٹ میں اس بل میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی لیکن اس وقت کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ہماری تجویز مسترد کر دی تھی۔‘‘

ملکی وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اس قانون کو پاس کرنے کا بنیادی مقصد ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا ہےاور انہیں تعلیم ، وراثت، صحت اور ملازمت کے برابر ذرائع فراہم کرنا بھی۔

پاکستان کی 2017 کی قومی مردم شماری کے مطابق ملک میں ایسے افراد کی تعداد تقریباً 10,000 ہے لیکن ان کے حقوق کے پاسدار گروہوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ملک کی کل 220 ملین آبادی میں یہ تعداد 300,000 سے زیادہ ہے۔

انسانی حقوق کے سینئر وکیل اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس ایکٹ سے پہلے پاکستان کے قوانین بنیادی طور پر صرف دو جنسوں کو تسلیم کرتے تھے اور جو ان دونوں میں نہیں آتے تھے انہیں پیدائش کے وقت طے شدہ جنس پر قائم رہنا پڑتا تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں اسکول میں داخلے، ملازمتوں، اکاؤنٹ کھولنے میں ان افراد کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ قانون ٹرانس جینڈر لوگوں کو ملک کے مرد اور خواتین شہریوں کے برابر لانے کی طرف ایک قدم ہے۔

ملک میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے سرکردہ ارکان نے 2018 میں اس بل کو ایک اہم قدم کے طور پر سراہا ہے۔ تاہم ان کارکنوں کو اب یہ تشویش لاحق ہے کہ یہ بل خطرے میں ہے اور پاکستانی حکومت کی جانب سے ٹرانس جینڈر کے لیے مساوات کے نفاذ کے لیے خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

بندیا رانا جو  اس کمیونٹی کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن ہیں، نے ڈی کو بتایا، ”ہم خوش تھے کہ ہماری زندگیوں میں تبدیلی آئے گی لیکن ہمیں اس ایکٹ کے فوائد ابھی تک حاصل نہیں ہوئے ہیں اور اب اسے ایک اور رکاوٹ کا سامنا ہے۔‘‘

2018 کے اس ایکٹ کو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایکٹ ملک میں ہم جنس پسند افراد کو آپس میں شادیاں کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ملک کے مطابق یہ ایکٹ  تیسری جنس کے حامل افراد کو اچھی تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی کے حقوق دیتا ہے اور اس میں کہیں بھی ہم جنس پسند شادیوں کا ذکر نہیں ہے۔

خواتین کے حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تاریخی بل ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو شناخت فراہم کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا، ”علما کی جانب سے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج  ٹرانس جینڈرز کو صنفی شناخت سے محروم رکھنے کی کوشش اور ایک بے کار بحث ہے۔‘‘

پاکستان میں عموما ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو معاشرے سے بےدخل رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ الگ تھلگ ہی رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ جنسی کام کرنے، بھیک مانگنے یا رقص کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

بندیا رانا کا کہنا ہے، ”ہمارے پاس صرف گانے اور رقص کرنے کا آپشن رہ جاتا ہے اور ہم پر ملک بھر میں حملے کیے جاتے ہیں۔ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ میں تقریباً 100 ہیجڑوں کو قتل کیا گیا ہے۔ ہم پاکستان میں اس کمیونٹی کی منصفانہ مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکام سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے حقوق کے معاملات  کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔‘‘

ملکی وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اس قانون کو پاس کرنے کا بنیادی مقصد ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا ہےاور انہیں تعلیم ، وراثت، صحت اور ملازمت کے برابر ذرائع فراہم کرنا بھی۔

انہوں نے کہا، ”اس قانون کو تمام سیاسی پارٹیوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں اسلامی مسائل پر حکومت کو مشاورت فراہم کرتی ہے۔

پاکستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی ابھی تک پسماندہ حالات میں

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 2009 میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ ملک میں ٹرانس جینڈر افراد خود کو تیسری جنس کے طور پر رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ تاہم اس فیصلے کے باوجود یہ کمیونٹی ابھی تک پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور دفاتر اور تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں