ایران نے 60 فیصد افزودہ یورینیم کی تیاری شروع کردی

تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) تہران حکومت نے کہا ہے کہ اُس نے اپنے فوردو جوہری پلانٹ پر 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی پیداوار کا کام شروع کر دیا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کی منگل کو سامنے آنے والی رپورٹوں کے مطابق فوردو کی اُس زیر زمین تنصیب میں یورینیم افزودگی کا کام شروع کر دیا گیا ہے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے ٹوٹ جانے کے بعد تین سال بعد دوبارہ کُھلی تھی۔ تہران کا یہ اقدام بہ ظاہر گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی جانب سے مغربی طاقتوں کی ایران کے خلاف پیش کردہ مذمتی قرارداد کا مسودہ منظور کیے جانے کا ردعمل تھا۔ اس مسودے میں مغربی طاقتوں نے ایران پر بین الاقوامی جوہری معائنہ کاروں کے ساتھ عدم تعاون کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ایران کی خبر رساں ایجنسی ISNA کی رپورٹ کے مطابق ایران نے پہلی بار فوردو پلانٹ میں 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی پیداوار شروع کر دی ہے۔

ایک ایٹم بم کے لیے 90 فیصد تک یورینیم کی افزودگی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ایران کی طرف سے 60 فیصد تک یورینیم افزودگی جوہری ہتھیار سازی کے ضمن میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ ایران نے ہمیشہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے کسی بھی عزم سے انکار کیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف سول مقاصد کے لیے ہیں۔

امریکی ردعمل

ایران کی طرف سے افزودہ یورینیم کی پیداوار کے بارے میں سامنے آنے والے تازہ ترین بیانات کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے منگل کو کہا کہ وہ تہران کے اس اعلان کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ اُس نے اپنے زیر زمین فوردو جوہری پلانٹ میں یورینیم کو 60 فیصد تک صاف کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔

انتھونی بلنکن ”امریکہ قطر اسٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کے سلسلے میں قطر کے دورے پر ہیں۔ جہاں انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کہا کہ ایران دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ہونے والی جوہری ڈیل کو بحال کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے درمیان ”غیرمتعلقہ مسائل‘‘ شامل کر رہا ہے۔

ایران اور مغربی طاقتوں کی ڈیل

2015 ء میں طے پانے والے ایک تاریخی جوہری معاہدے کے تحت، ایران نے فوردو پلانٹ کو ختم کرنے اور اس کی یورینیم کی افزودگی کو 3.67 فیصد تک محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا جو کہ زیادہ تر شہری استعمال کے لیے کافی ہوتی ہے۔ مغربی طاقتوں نے ایران کو جو جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں کا پیکیج دیا تھا اُس کے ایک حصے کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کو خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنا تھا۔ اس کے بدلے میں بڑی طاقتوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں میں نرمی کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن یہ معاہدہ 2018 ء میں اس وقت مسائل کا شکار ہو گیا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کو معاہدے سے باہر نکال لیا اور ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں۔

جنوری 2021 میں، ایران نے کہا تھا کہ وہ فوردو میں یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ کئی ماہ بعد ایک اور ایرانی نیو کیلیئر پلانٹ نے یورینیم افزودگی 60 فیصد تک پہنچا دی۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے واشنگٹن کے لیے ایک بحال شدہ ڈیل پر واپس آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور گزشتہ سال اپریل سے ”آن آف مذاکرات‘‘ جاری ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ماہ کے آخر میں کہا تھا کہ انہیں معاہدے کی بحالی کی بہت کم گنجائش نظر آ رہی ہے کیونکہ ایران اپنے ہاں ستمبر میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس حراست میں موت کے بعد سے ملک گیر مظاہروں کا مقابلہ کرنے میں بہت زیادہ مصروف ہے۔

واضح رہے کہ تہران کے جنوب میں تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر بھاری فوردو پلانٹ کو زمین کے اندر گہرائی میں تعمیر کیا گیا تھا تاکہ اسے فضائی یا میزائل حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں