پارلیمنٹ کے غدار اور گستاخ۔۔۔! (ساجد خان)

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر فیصل واڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں وزیراعظم عمران خان کو اللہ پاک کے بعد سب سے بڑی شخصیت قرار دیا تو ان کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
فیصل واڈا نے معاملہ بڑھنے پر اپنے الفاظ واپس تو لے لۓ مگر اپوزیشن نے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور پارلیمنٹ اجلاس میں اس کی مذمتی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی،جس پر اجلاس شور شرابہ کی نظر ہو گیا۔
اپوزیشن نے مذمتی قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کے طور پر قومی اسمبلی کے اندر ہی تاریخ میں پہلی بار باجماعت نماز ادا کی حالانکہ اسی عمارت میں چند قدم کے فاصلے پر مسجد موجود تھی۔
نماز ادا تو کر دی گئی مگر یہ حرکت الٹا اپوزیشن کے گلے پڑ گئی کیونکہ نماز کے لئے قبلہ کا صحیح تعین نہیں کیا گیا تھا۔
اب مذمتی قرارداد جمع کروانے کی باری حکومت کی تھی اور یوں یہ معاملہ کافی حد تک دب گیا کیونکہ دونوں ہی گستاخ ثابت ہو چکے تھے۔
یہ تو ہو گئی گستاخوں کی کہانی،اب بیان کرتے ہیں غدار کا قصہ۔
گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران انگریزی میں حکومت کے خلاف نہایت مدبرانہ تقریر کی۔
جس میں کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کی مذمت کے ساتھ ساتھ حکومتی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے۔
اس تقریر کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے جواب دینے کی ٹھانی لیکن تقریر سننے والوں کو اس وقت نہایت مایوسی ہوئی جب اسد عمر نے اعتراضات اور سوالات کے جوابات دینے کے بجائے بلاول بھٹو پر یہ اعتراض کر دیا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ زرداری لگانے کے بجائے بھٹو کیوں لگاتے ہیں۔
دوسرا اعتراض یہ سامنے آیا کہ آخر بلاول بھٹو نے انگریزی میں تقریر کیوں کی جبکہ پاکستان کی اکثریت انگریزی زبان سے ناواقف ہے۔
اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو پاکستانی قوم سے مخاطب نہیں تھے۔ اس کے فوراًِ بعد ہی الزام لگایا کہ بلاول بھٹو نے انگریزی میں اس لئے تقریر کی کیونکہ وہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنا چاہتے تھے اور تقریر کے دوران بلاول بھٹو نے وہ بیانیہ پیش کیا جو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔
یہ تو بالکل ویسی ہی بات ہو گئی کہ ایک شخص چارپائی بُن رہا تھا،دوسرا شخص پاس سے گزرا تو اس نے کہا کہ تم چارپائی غلط بُن رہے ہو،چارپائی بُننے والے نے کہا جاؤ جاؤ تم کون سا میرے بھائی کی شادی میں شریک ہوئے تھے یعنی سوال گندم جواب چنا۔
اسد عمر کی اس تقریر کی ہر سطح پر مذمت کی گئی کیونکہ اتنے ذمہ دار عہدے پر فائز شخص سے ایسی زبان استعمال کرنے کی ہرگز توقع نہیں تھی حالانکہ موصوف پاکستان تحریک انصاف میں سب سے زیادہ سلجھے اور ٹھنڈے مزاج کے سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں اس قسم کی انتہا پسندی کوئی نئ بات نہیں ہے،معمولی سی بات پر گستاخ،کفر اور غدار کے فتوے لگنا معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے مگر اب یہ انتہا پسندی پارلیمنٹ میں بھی نظر آنے لگ گئی ہے۔
پاکستان نے اس غدار اور کافر کے کھیل میں بہت سی انمول شخصیات کو کھویا ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا ولی خان۔
سلمان تاثیر ہوں یا شہباز بھٹی۔
ان سب شخصیات پر یہی ہتھیار استعمال کیا گیا تھا لیکن ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہی کہاں جانتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ذاتی اور سیاسی اختلافات میں بھی مذہب اور وطن پرستی کو شامل کر کے غداری اور کفر کی اسناد دینے سے بالکل بھی دریغ نہیں کرتے۔
اسد عمر کو اس معاملے پر ذمےداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ بلاول بھٹو پر غداری کا الزام لگانا پیپلزپارٹی کے لاکھوں کارکنان اور ووٹرز کی نام صرف دل آزاری ہے بلکہ پوری پیپلزپارٹی کی نیت پر شک کرنے کے مترادف ہے اور سیاست میں یہ سلسلہ نہایت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کے ان الزامات کے بعد حسب توقع پیپلزپارٹی کے کارکنان کا بھی ردعمل سامنے آیا جو کہ فطری تھا،انہوں نے اسد عمر کے والد جنرل غلام عمر کی کردار کشی شروع کر دی اور یوں 1971 کی جنگ کے وہ منفی پہلو بھی سامنے آ گۓ جو ایک طویل عرصہ تک پوشیدہ تھے۔
وزیر خزانہ کے پاس اگر بلاول بھٹو کے سوالات کے جوابات نہیں تھے تو وہ خاموش رہ سکتے تھے یا موضوع بدل سکتے تھے مگر انہوں نے تو تلخ لہجہ اپنانا ہی بہتر سمجھا۔

پاکستان تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آج بھی حکومت میں رہ کر اپوزیشن کا رویہ اپنائے ہوئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسمبلی میں اپوزیشن کا کام ہی سوالات اور اعتراضات کرنا ہوتا ہے،جیسا کہ گزشتہ حکومت میں تحریک انصاف کرتی رہی ہے جبکہ حکومت کا کام تحمل کے ساتھ دفاع کرنا ہوتا ہے۔

بات بات پر طعنہ اور طنز کی سیاست کا آغاز پی ٹی آئی نے ہی شروع کی تھی جو آج بھی جاری ہے لیکن یہ رویہ اپوزیشن میں تو برداشت کیا جا سکتا ہے مگر حکومت میں آ کر وہی رویہ بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت اقتدار میں آتے ہی نوے کی سیاست پر اتر آئی ہے حالانکہ ان کو جاننا چاہئے کہ پارلیمنٹ اس لئے نہیں ہے کہ آپ سیاسی اختلافات پر دوسروں کو کافر یا غدار قرار دینا شروع کر دیں اور نا ہی عوام نے آپ کو آپسی لڑائی کے لئے منتخب کیا تھا۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں