پشاور: ایس ایچ او شاہ پور کا علاقے کے مسائل شریعت کے مطابق حل کرنے کا اعلان

پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے تھانہ شاہ پور کے ایس ایچ نے علاقہ مکینوں کو حکم دیا ہے کہ مذکورہ تھانے کی حدود میں ہر قسم کے فیصلے شریعت کے مطابق کئے جائیں جبکہ شادی بیاہ و خوشی کی دیگر تقریبات میں موسیقی پر مکمل پابندی ہو گی ورنہ (خلاف ورزی کی صورت میں) متعلقہ افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

خیبر پختونخوا کے انسانی حقوق کے کمیشن، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی نے اس حکم کو انسانی حقوق، آئین پاکستان اور پولیس رولز کی خلاف ورزی قرار دے کر مطالبہ کیا ہے کہ غیرآئینی فیصلے پر ایس ایچ او کے خلاف محکمانہ کاروائی کی جائے۔

تھانہ شاہ پور کے ایس ایچ او کا تھانے میں معززین علاقہ سے خطاب کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایس ایچ او عبدالعلی کہہ رہے ہیں کہ جو مسئلہ تھانے آئے گا اسے شریعت کے مطابق حل کیا جائے گا۔

ایس ایچ او تھانہ عبدالعلی کہہ رہے ہیں کہ کوئی بھی شادی بیاہ کی تقریبات میں خواجہ سرا یا رقاصہ نہیں بلائے گا، شادی کی تقاریب میں آتش بازی اور فائرنگ پر مکمل پابندی ہو گی اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

تھانہ شاہ پور کے ایس ایچ او عبدالعلی خان نے خبر رساں ایجنسی ٹی این این کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں تسلیم کیا کہ انہوں ںے اپنے علاقے میں شریعت کے خلاف فیصلوں میں ملوث، شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں موسیقی بجانے والے افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

عبدالعلی خان نے بتایا “علاقہ مکینوں کو کلیئرکٹ (صاف صاف) بتایا ہے کہ شادی کی تقریبات میں موسیقی نہیں ”بجائی جائے” گی، شادی کی تقریبات میں خواجہ سراؤں اور رقاصاؤں کو نہیں بلایا جائے گا، اس سے کوئی مسلمان انکار کر سکتا ہے کہ یہ عمل خلاف شریعت ہے۔”

ایس ایچ او عبدالعلی نے کہا “اس فیصلے پر علاقہ مکین مکمل طور پر خوش ہیں، کیا یہ انسانیت کا کام ہے کہ خواجہ سراء اور رقاصائیں ناچیں؟ اس سے نوجوان نسل برباد ہو جاتی ہے، خواجہ سراؤں کے پروگراموں کی وجہ سے قتل مقاتلے کے واقعات اور آئس کے نشے میں اضافہ ہوتا ہے۔”

دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے ایس ایچ او کے اس اقدام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے مذکورہ ایس ایچ او کا حکم آئین پاکستان اور پولیس رولز کی خلاف ورزی ہے اور ایسے افراد کو ذمہ دار کرسیوں پر بٹھانا معاشرے کی تباہی کا سبب ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، ایڈوکیٹ شبیر حسین گگیانی نے ٹی این این کو بتایا کہ پولیس اہلکار آئین پاکستان اور قانون کے محکوم ہیں اور وہ پابند ہیں کہ قانون ساز اسمبلی کے بنائے گئے قوانین اپنے ہی علاقے میں نافذ کریں جبکہ یہی حکم شریعت بھی دیتی ہے۔

ایڈوکیٹ شبیر حسین نے بتایا “پاکستان کے تمام قوانین شریعت کے عین مطابق ہیں لیکن یہاں پر ایس ایچ او نے غیرقانونی حکم صادر کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ جب کوئی پولیس اہلکار اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے خلاف قانون عمل کرتا ہے تو اس کے خلاف پولیس ایکٹ 2017 اور پولیس رولز 1934 کے تحت محکمانہ کاروائی ہو سکتی ہے۔

خیبر پختوںخوا میں انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) نے مطالبہ کیا ہے کہ اس قسم کے فیصلوں کو کوئی قانونی جواز حاصل نہیں اور جس عمل سے انسانی حقوق اور شہریوں کی آزادی سلب ہوتی ہے وہ غیرآئینی ہے، اس پر پولیس کے اعلیٰ حکام کو نوٹس لینا چاہئے۔

ایچ آر سی پی کے اکبر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ ملک میں رائج قوانین کا نفاذ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی اولین ذمہ داری ہے مگر یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کے غیرآئینی احکامات کو پولیس کے اعلیٰ حکام ایک فرد کا فیصلہ سمجھتے ہیں جس میں صرف معطلی کی سزا دی جاتی ہے مگر ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ غیرآئینی اقدامات پر ایکشن لے کر آئندہ ذمہ دار عہدوں پر ایسے اشخاص کو نہ بٹھایا جائے۔

یاد رہے کہ رواں سال جون میں ضلع باجوڑ کے علاقہ مشران نے خواتین کے بازار میں اکیلے آنے پر پابندی لگائی تھی جبکہ جولائی میں ضلع چارسدہ کے تھانہ خانمائی پولیس نے شیو کرنے پر پابندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد حکومت کی جانب سے ایکشن لینے پر مذکورہ فیصلے واپس لئے گئے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت پر قبضے کے بعد انتہاپسندی کے اثرات نہ صرف پاکستان میں عوام بلکہ سرکاری اداروں میں بیٹھے اہلکاروں پر بھی مرتب ہوئے ہیں جن کے نتائج خطرناک ہوں گے۔

سینئر صحافی سید شاہ رضا شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ اُن کا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے یا ہر شخص اپنے طور پر خودساختہ عدالتیں لگا کر فیصلے کرے گا؟

سید شاہ رضا شاہ نے کہا “اس قسم کے فیصلوں کے معاشرے پر بُرے اثرات مرتب ہوں گے، کل ایس ایچ او کسی کا قتل بھی کر سکتا ہے اور کہیں گے کہ فلاں شخص نے ان کی سوچ کے خلاف کام کیا تھا، اس اہم مسئلے کو سارے پولیس افسران اور آئینی ماہرین سمجھتے ہیں کیونکہ معاشرے میں ہر شخص الگ الگ سوچ رکھتا ہے مگر آخری فیصلہ قانون کا ہو گا۔”

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے غیرقانونی احکامات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے بالخصوص اداروں میں بنیاد پرستی، رجعت پسندی اور انتہاپسندی کس حد تک سرائیت کر چکی ہے، اس کے نتیجے میں ذمہ دار کرسیوں پر بیٹھے لوگ قانون، اختیار اور آئین کا خیال نہیں رکھتے جو معاشرے میں انارکی پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔

شاہ رضا نے کہا “پاکستان میں مختلف الخیال لوگ رہتے ہیں اگر کوئی شخص آئین کے خلاف اپنی ذاتی خواہشات پر ملک، ریاست یا علاقے کا نظام چلانا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے اور ایسے اشخاص کو ذمہ دار عہدوں پر بٹھانا معاشرے کی تباہی کا سبب ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں