اہلیان سوات کو ایک دہائی بعد پھر طالبان سے بھتہ خوری کے پیغامات موصول ہونے لگے

سوات (ویب ڈیسک) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں مبینہ طور پر طالبان کی واپسی کی خبروں سے عوام میں خوف پھیل گیا ہے، انہیں ڈر ہے کہ یہ صورت حال سوات کو دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنا سکتی ہے۔

نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کا کہنا ہے کہ ایک قانون ساز کے موبائل فون میں پیغام موصول ہوا جس میں طالبان ’عطیات‘ کا مطالبہ کررہے تھے۔

پیغام میں کلعدم جماعت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے لکھا کہ ہمیں اُمید ہے کہ آپ مایوس نہیں کریں گے۔

کچھ ہی دیر بعد پیغام میں خبردار کیا گیا کہ اگر آپ نے مالی مدد کرنے سے انکار کیا تو آپ اپنے آپ لیے مسائل پیدا کریں گے، ہمیں یقین ہے کہ آپ ہماری بات سمجھ گئے ہوں گے

افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد کلعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) خیبرپختونخوا کی سرحدی علاقوں پر دوبارہ واپس آگئے ہیں

صوبائی قانون ساز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ایک کروڑ 2 لاکھ روپے کی رقم ٹی ٹی پی کو دینے پر مجبور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جولوگ ٹی ٹی پی کو رقم ادا نہیں کرتے انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی یہ گھر کے دروازے پر دستی بم پھینک دیتے ہیں اور کبھی گولی چلا دیتے ہیں

انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر امیر لوگ انہیں بھتے کی رقم ادا کرتے ہیں، کچھ لوگ کم اور زیادہ رقم ادا کرتے ہیں لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا، ہر کوئی اپنی جان کے تحفظ کیلئے خوف زدہ ہے۔

’کھلی پناہ گاہ‘

کلعدم جماعت تحریک طالبان پاکستان سال 2007 سے سال 2009 کے دوران سوات پر قبضے کے بعد زیادہ مضبوط تھی ۔

لیکن سال 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پروحشیانہ حملے کے بعد پاکستانی فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کیا۔

خیال رہے کہ آرمی پبلک اسکول میں 150 لوگ جاں بحق ہوگئے جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔

فوج کے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے بعد ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان فرار ہوگئے۔

اسلام آباد کے سینٹر فار ریسیرچ اینڈ سیکیورٹی کے تجزیہ کار امتیاز گل نے بتایا افغانستان طالبان حکومت آنے کے بعد یہ خطہ ٹی ٹی پی کے لیے ایک ’کھلی پناہ گاہ‘ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں رہتے ہوئے ان کے پاس ہر قسم کے فعل کرنے کی آزادی ہے، یہ ایک سادہ وضاحت ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کے حملوں میں کیوں اضافہ ہوا ہے۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق طالبان کی واپسی کے بعد سے ایک سال کے دوران پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں تقریباً 433 افراد مارے گئے ہیں۔

’وہی پرانا کھیل‘

سوات کمونٹی کے کارکان احمد شاہ نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے ملک میں وہی پرانا کھیل شروع کردیا ہے مثال کے طور پر ملک میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اغوا اور بھتہ خوری کے لیے فون کالز وغیرہ۔

بلیک میلنگ نیٹ ورک ٹی ٹی پی کو مالی مدد فراہم کرتا ہے

صوبائی قانون ساز نثار مہمند کے اندازے کے مطابق تقریباً مینگوڑہ کے ملحقہ اضلاع کے 80 سے 95 فیصد رہائشی ٹی ٹی پی کی بلیک میلنگ کا شکار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھی قانون ساز نے جب بھتہ دینے سے انکار کیا تو انہیں ٹارگٹ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کئی افراد انتہائی خوف زدہ تھے۔

صوبائی قانون ساز نثار مہمند کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کا جزا اور سزا کا اپنا نظام ہے، انہوں نے افغانستان میں ایک طرح سے اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے تو یہ لوگ ان کے کاموں میں مزاحمت کیوں کریں گے؟۔

افغان طالبان کا پاکستان کے ساتھ دیرینہ اختلافات ہیں جبکہ دوسری جانب طالبان کا کابل میں اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹی ٹی پی جب فون کال کے ذریعے بلیک میل کرتی ہے تو اس کی نشانی ان کا فون نمبر ہے جوبین الاقوامی کوڈ +93 سے شروع ہوگا ہے، یہ کوڈ افغان سِم کارڈ کی نشاندہی کرتا ہے۔

فون کال موصول ہونے کے بعد ان کی جانب سےپاکستانی انداز میں پشتو زبان میں پیغام اور وائس میسج موصول ہوتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف نے ٹی ٹی پی کا پیغام سنا جس میں دھمکی دی گئی کہ اگر زمین دار نے رقم کی ادائیگی کرنے سے انکار کیا تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

پیغام میں خبردار کیا گیا کہ ظلم اور زیادتی کے دن قریب ہیں یہ مت سوچیں کہ ہار مان جائیں گے۔

صوبائی رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط میں بتایا کہ متاثرین کو سال میں پانچ بار فون کال کے ذریعے دھمکی دی جاتی ہے۔

لیکن علاقے کے ایک سویلین انٹیلی جنس اہلکار نے اصرار کیا کہ وہ ”خطرات کی جڑ“ ہیں۔

سال 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ٹی ٹی پی نے شہری آبادی پر حملے کم کردیے اور دعویٰ کیا کہ کچھ مجرم ٹی ٹی پی کا نام لےکر شہریوں کو بھتے کی فون کال کرتے ہیں

لیکن سیولین انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ شہریوں کو دھمکی کے پیغامات، فون کال کے پیچھے ٹی ٹی پی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں