شام پر ترکی کے حملے سے داعش کے خلاف کارروائیوں میں رکاوٹ ہے، امریکا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) امریکہ کے مطابق کرد علاقوں میں ترکی کی زمینی کارروائی اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) کے خلاف کامیابیوں کو ‘خطرے’ میں ڈال سکتی ہے۔ کرد فورسز نے امریکہ اور روس سے انقرہ کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے کو کہا ہے۔

امریکی اور کرد حکام نے 29 نومبر منگل کے روز کہا کہ کرد علاقوں میں ترکی کے فضائی حملے اور مستقبل میں شمالی شام کے اندر اس کی ممکنہ زمینی کارروائی نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ’ داعش سے نمٹنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

ترکی نے رواں ماہ کے اوائل میں استنبول میں ہونے والے ہلاکت خیز بم دھماکے کے جواب میں شمالی شام کے کرد علاقوں میں فضائی حملےشروع کیے، جس میں متعدد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ استنبول میں ہونے والے دھماکے میں معروف مرکزی استقلال اسٹریٹ پر چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ترک حکام نے اس بم دھماکے کا الزام کرد عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے، تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ترک صدررجب طیب ایردوآن نے اب ان کرد عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی کارروائی کی بھی دھمکی دی ہے۔

امریکہ کا کیا کہنا ہے؟

پینٹاگون کے پریس سکریٹری بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائڈر نے منگل کے روز کہا، ”تنازعے کا جاری رہنا، خاص طور پر زمینی حملے کی صورت میں، سخت جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی ان کامیابیوں کو شدید خطرے میں ڈال دے گا، جو دنیا نے اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے خلاف حاصل کی ہیں۔ اور اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔”

ترکی کی حالیہ بمباری کے تناظر میں امریکہ کو بھی مقامی کرد فورسز کے ساتھ اپنی معمول کی مشترکہ گشتوں کی تعداد کو بھی کم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، کیونکہ اس کے سیکورٹی پارٹنرز نے اپنی گشتیں کم کر دی ہیں۔

رائڈر نے کہا کہ امریکہ شام میں ترکی کی ممکنہ زمینی کارروائی کے بارے میں فکر مند ہے، اور وہ پھر سے اس بات پر زور دے گا کہ تحمل برتنے کی ضرورت ہے۔

کردوں میں بے چینی

شمالی شام کا زیادہ تر حصہ شام کی ‘ڈیموکریٹک فورسز’ (ایس ڈی ایف) کے زیر کنٹرول ہے، جو اس علاقے میں کردوں کی عملاً فوج ہے۔ اس فوج کو جہاں امریکہ کی حمایت حاصل ہے، وہیں یہ شامی حکومت اور اس کے اہم اتحادی روس کے ساتھ بھی تعاون کرتی ہے۔

ایس ڈی ایف کے سربراہ مظلوم عبدی کا کہنا ہے کہ انہیں واشنگٹن اور ماسکو سے اس بات کی ”واضح” یقین دہانیاں ملی ہیں کہ وہ ترکی کے زمینی حملے کی مخالفت کریں گے، تاہم انہوں نے اسی روک تھام کے لیے مزید ٹھوس اقدام پر زور دیا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ”ہم ابھی تک بے چین ہیں۔ ہمیں ترکی کو روکنے کے لیے مزید مضبوط اور ٹھوس بیانات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا: ”ترکی اپنے ارادوں کا اعلان کر چکا ہے اور اب چیزیں پوری طرح سے ظاہر ہونے لگی ہیں۔ حملے کا آغاز اس بات پر منحصر کرے گا کہ وہ دوسرے ممالک کے موقف کا تجزیہ کس انداز سے کرتا ہے۔”

کشیدگی بڑھنے کا خدشہ

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے منگل کی رات کو ہی سلامتی کونسل سامنے مستقبل کے ”فوجی کشیدگی کے خطرات” کے بارے میں خبردار کیا۔

ترکی نے سن 2019 میں سرحد پار شام کے اندر فوجی آپریشن کیا تھا اور اس کے بعد سے اس نے شامی اور کرد فورسز کے ساتھ ایک نازک سی جنگ بندی برقرار رکھی ہے۔

پیڈرسن کا کہنا ہے، ”چونکہ آج سیاسی طور پر تنازعہ کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے، اس لیے میں ایک ایسے منظر نامے سے بھی خوفزدہ ہوں، جہاں صورتحال جزوی طور پر بڑھ جانے کا امکان ہو۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں