شام میں مظاہروں کے دوران ایک پولیس اہلکار سمیت دو افراد ہلاک

دمشق (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) جنگ زدہ ملک شام میں معاشی پریشانیوں نے جنوبی شہر السّویداء میں غم و غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ مظاہرین نے ایک سرکاری عمارت پر دھاوا بولنے کے ساتھ ہی عمارت پر آویزاں صدر بشار الاسد کی ایک بڑی سی تصویر کو بھی اکھاڑ پھینکا۔

شام کے جنوبی شہر السّویداء میں اتوار کو ایک عام شہری اور ایک پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے، جب سکیورٹی فورسز نے جنگ زدہ ملک کی معاشی مشکلات سے پریشان لوگوں کے ایک احتجاجی مظاہرے کے خلاف کریک ڈاؤن کی کوشش کی۔

معاشی مشکلات سے دو چار لوگوں کی بے چینی نے حکومت کے زیر قبضہ اس شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتوار کو مظاہرین نے ایک سرکاری عمارت پر حملہ کرنے سے پہلے پتھراؤ بھی کیا۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ سرکاری عمارت کے اندر داخل ہونے سے پہلے مظاہرین نے، عمارت کے سامنے شامی صدر بشار الاسد کی جو بڑی سی تصویر آویزاں تھی اسے بھی اکھاڑ کر پھینک دیا۔

مظاہروں کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

سیریئن آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمٰن نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تصادم میں ”مظاہروں میں شامل ایک شخص اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا ہے۔”

رحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومتی عمارت میں زبردستی داخل ہونے والے مظاہرین پر سیکورٹی فورسز نے فائرنگ شروع کر دی اور اسی دوران ایک شہری گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدامنی پر قابو پانے کے لیے مظاہرین کو زبردستی منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایک مقامی میڈیا ادارے السویداء 24 نے بھی مظاہروں کے دوران دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی اور کہا کہ گولی لگنے سے زخمی ہونے والے چار دیگر افراد کو اسپتال میں بھی داخل کرایا گیا ہے۔

السّویداء کہاں ہے؟

السویداء شہر دارالحکومت دمشق کے جنوب میں دروز کے مرکز میں واقع ہے، جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران معاشی مسائل کی وجہ سے متعدد بار احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں اور لوگ اپنے مشکلات کے حل کے لیے سڑکوں پر نکلتے رہے ہیں۔

یہ خطہ بڑی حد تک ملک کی اس خانہ جنگی سے دور رہا ہے، جو گزشتہ 11 برسوں سے جاری ہے اور جس کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اس کے سبب مقامی کرنسی کی قدر میں بھی ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔

سن 2011 میں شروع ہونے والی اس خانہ جنگی کے نتیجے میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ کئی ملین افراد گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں