انڈونیشیا نے بالی بم دھماکوں کے ایک اہم مجرم کو رہا کردیا

جکارتہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/رائٹرز) عمر پاٹیک سن 2002 کے حملوں، جس میں 21 ممالک کے تقریبا 200 افراد ہلاک ہو گئے تھے، کے لیے20 برس قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ آسٹریلیا نے رہائی کے بعد بھی جکارتہ سے ان پر مسلسل نگاہ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انڈونیشیا نے سات دسمبر پیر کے روز عمر پاٹیک کو پرول پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں سن 2002 کے بالی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے جرم میں بیس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس دہشت گردانہ حملے میں 200 سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاٹیک نے اپنی سزا کی نصف سے زیادہ مدت مکمل کر لی ہے۔

القاعدہ سے منسلک جماعت اسلامیہ (جے آئی) کے رکن پاٹیک کو دو پرہجوم نائٹ کلبوں پر حملے میں استعمال ہونے والے بموں کو تیار کرنے کا مجرم پا یا گیا تھا۔ انہیں اس کے لیے سن 2012 میں 20 سال کے لیے جیل بھیجا گیا تھا۔

بدھ کے روز وزارت قانون اور انسانی حقوق نے ان کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جیل سے باہر آنے کے بعد پاٹیک کو اپریل 2030 تک ایک مخصوص ”ذہنی سازی کے پروگرام” میں شامل ہونا پڑے گا۔

وزارت کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران اگر انہوں نے کی کسی بھی شرط کی خلاف ورزی کی تو ان کا پرول منسوخ کر دیا جائے گا۔ وزارت قانون اور انسانی حقوق کی ترجمان ریکا اپریانتی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام کا خیال ہے کہ پاٹیک میں انسداد انتہا پسندی کے پروگرام میں شامل ہونے کے بعد کافی ”تبدیلیاں دیکھی گئیں ہیں۔”

ان کا کہنا تھا، ”سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے متحدہ جمہوریہ انڈونیشیا کی ریاست سے وفاداری کا عہد کیا ہے۔”

آسٹریلیا کا اعتراض

آسٹریلیا عمر پاٹیک کی جیل سے رہائی پر اعتراض کرتا رہا ہے اور ملک کے نائب وزیر اعظم رچرڈ مارلس نے ان کی رہائی کے حوالے سے انڈونیشیا پر زور دیا ہے کہ وہ پاٹیک کو اپنی ”مسلسل نگرانی” میں رکھے۔

جمعرات کے روز آسٹریلیا کی حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ جکارتہ سے اس بات کی یقین دہانی کا مطالبہ کر رہی ہے کہ سن 2002 کے بالی دہشت گردانہ حملوں کے مجرم کی جیل سے رہائی کے بعد بھی نگرانی جاری رہے گی۔

بالی حملے میں جو ِ200 بھی زیادہ افراد اہلاک ہوئے تھے، اس میں تقریبا 88 افراد آسٹریلیا کے شہری تھے جو بطور سیاح وہاں تفریح کے لیے گئے تھے۔

آسٹریلوی وزیر داخلہ کلیئر اونیل نے کہاکہ متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے یہ ایک ہولناک دن تھا۔ ان کا کہنا تھا، ”یہ وہی شخص ہے جو انڈونیشیا کے نظام انصاف کی گرفت میں تھا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس کے اقدامات ناقابل معافی اور مکمل طور پر گھناؤنے ہیں۔ ہم انڈونیشیا کے نظام انصاف کو کنٹرول نہیں کرتے ہیں۔ اور پوری دنیا کا یہی طریقہ کار ہے۔”

بالی بم دھماکوں سے ہونے والی تباہی

بالی کے کوتا ضلعے میں تین مقامات پر پے در پے بم دھماکے ہوئے تھے۔ پہلا بم دھماکہ پیڈی پب میں ہوا جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد موجود تھی، ساتھ ہی ساری کلب میں بھی دھماکا ہوا جو پیڈی پب کے قریب ہی لیگیان نامی سڑک پر واقع تھا۔

ان دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر غیرملکی سیاح تھے جو ساحل پر واقعے تفریح کے لیے مخصوص علاقے میں موجود تھے۔ دو بم دھماکوں کا نشانہ بننے والوں میں 88 آسٹریلین، 38 انڈونیشی، 23 برطانوی اور متعدد دیگر ملکوں کے شہری شامل تھے۔

تیسرا بم دھماکا دس منٹ بعد امریکی قونصلیٹ کے قریب ہوا تھا، تاہم اس میں کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔

دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ جماعت اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ نوے کی دہائی میں یہی گروہ مسیحیوں اور مغربی باشندوں کو ہدف بنانے کی کارروائیوں میں ملوث رہا تھا اور جنوب مشرقی ایشیا میں ‘اسلامی خلافت‘ کے قیام کا نعرہ لگاتا تھا۔

بالی بم دھماکوں کے بعد جکارتہ کی حکومت نے آسٹریلیا اور امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی سے متعلق تعاون میں اضافہ کیا اور اس کے بعد درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا، جس کے بعد جماعت اسلامیہ کمزور ہوتی چلی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں