سری لنکن بحریہ نے 104 روہنگیا پناہ گزینوں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا

کولمبو (ڈیلی اردو/رائٹرز) سری لنکا کی بحریہ نے شمالی ساحل کے قریب کھلے سمندر میں 104 روہنگیا پناہ گزینوں کو ڈوبنے سے اس وقت بچا لیا جب سمندری طوفان کی وجہ سے ان کی کشتی خراب ہونے کے بعد لہروں پر ہچکولے کھا رہی تھی۔

میانمار میں مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد سیکیورٹی فورسز کے تشدد سے بچنے کے لیے فرار ہو کر دیگر ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں حفاظت سے رہ سکیں۔

ہر سال بہت سے روہنگیا افراد اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں خراب ہوتے ہوئے حالات اور گزشتہ برس میانمار میں فوجی بغاوت اور اقتدار پر قبضے سے ملک چھوڑ کر جانے والے روہنگیاؤں کی تعداد میں اضافه ہوا ہے۔

سری لنکا کی بحریہ کے ترجمان کیپٹن گیان وکرماسوریہ نے بتایا ہے کہ سری لنکا کی بحریہ کو پہلی بار اس کشتی کا علم اس وقت ہوا جب وہ ساحل سے تقریباً ساڑھے تین ناٹیکل میل دور تھی۔ کشتی کے محل و قوع کا اندازہ ہونے اور سمندری حالات کا پتہ چلنے کے بعد اتوار کی رات کو کشتی کی تلاش اوراس پر سوار افراد کو بچانے کا آپریشن شروع کیا گیا۔

نیوی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جب کشتی کو پکڑا گیا تو اس پر 104 افراد سوار تھے۔ سمندر کی طوفانی لہروں کی وجہ سے اس چھوٹٰی کشتی کا انجن خراب ہو گیا تھا اور اس کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ بیان کے مطابق کشتی کی منزل غالباً انڈونیشیا تھی اور اس نے اپنے سفر کا آغاز میانمار سے کیا تھا۔

بحریہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طوفان میں پھنسی کشتی سے بچائے جانے والے افراد میں 39 خواتین اور 23 بچے بھی شامل ہیں، جب کہ ایک 80 سالہ بزرگ، ایک ماں اور اس کے دو بچوں کو بیماری کی وجہ سے اسپتال داخل کرا دیا گیا ہے۔

وکرماسوریہ نے رائٹرز کو بتایا کہ کشتی پر سوار تمام لوگوں کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے گی جس کے بعد اگلے مرحلے کا فیصلہ ہو گا۔

میانمار میں2018 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعدسات لاکھ 30 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق میانمار سے روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک سے بھاگنا اس وقت شروع کیا جب سیکیورٹی فورسز کے دستوں کے ان کی آبادیوں میں گھس کر ان کا قتل عام کیا، گھروں کو آگ لگائی اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں شروع کیں۔

انسانی حقوق کے گروپ اور میڈیا شہریوں کے قتل اور دیہاتوں کو نذر آتش کرنے سے متعلق بہت سے دستاویزی شواہد پیش کر چکے ہیں۔ جب جبکہ میانمار کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں جاری بدامنی اور شورش سے نمٹ رہے ہیں۔ فوجی حکومت کسی بھی طرح کے منظم مظالم کے واقعات سے انکار کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں