افغان یونیورسٹیوں میں طالبات پر پابندی کے خلاف مظاہرے

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) افغان دارالحکومت کابل میں یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران متعدد خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس فیصلے سے ملک میں عمومی طور پر ناراضی پائی جاتی ہے۔

افغانستان میں طالبان کی طرف سے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی کے فیصلے کے خلاف جمعرات کے روز بھی متعدد شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا، جہاں اطلاعات کے مطابق مظاہروں میں حصہ لینے والی کم از کم پانچ خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔

بعض خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی مار پیٹ کے واقعات کی بھی اطلاع دی ہیں۔ دارالحکومت کابل سمیت بعض دیگر شہروں میں بھی طالبات نے اس پابندی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی۔

مرد میڈیکل طلبہ کا ایک گروپ امتحان کے دوران بطور احتجاج اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔ مشرقی افغانستان میں ننگرہار یونیورسٹی کے باہر طلبا گھنٹوں تک احتجاج کے لیے جمع رہے۔ مختلف شہروں میں درجنوں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں، جو ”سب کے لیے یا پھر کوئی نہیں” اور ”تعلیم سب کے لیے” جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔

طالبان نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے انہیں مارا پیٹا۔ یونیورسٹی کے مرد لیکچررز نے بھی پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کام کا بائیکاٹ کیا یا پھر کئی ایک نے اپنی ملازمتیں ترک کرنے کا اعلان کیا۔

عبید اللہ وردک، جو کابل یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی میں پڑھاتے ہیں، سب سے پہلے ملازمت ترک کرنے والے والوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں اپنے ضمیر کے ساتھ اس بات کی مفاہمت نہیں کر سکتا، میں ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔”

تاہم انہوں نے کہا کہ شاید طالبان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ اس بات کی امید ہے کہ بہت سے دیگر لوگ بھی بطور احتجاج ایسا کریں گے۔

امارت اسلامیہ کا غیر منصفانہ فیصلہ

مغربی افغانستان میں غور یونیورسٹی کی ایک طالبہ نظیفہ ذکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں حیران ہوں۔ میں ناامیدی محسوس کرتی ہوں، کیونکہ ایک پوری نسل، نصف آبادی،کو تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔”

مسعودہ نامی ایک اور خاتون، جن کا تعلق صوبہ جوزجان سے ہے اور جنہوں نے کابل میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ بھی پریشان ہیں۔ کہتی ہیں: ”امارت اسلامیہ کا یہ فیصلہ غیر منصفانہ ہے۔”

افغانستان میں اب لڑکیاں صرف چھٹی جماعت تک ہی اسکول جا سکتی ہیں۔ جمعرات کے روز کچھ افغان شہروں میں لڑکیوں کو پرائمری اسکولوں سے بھی گھر بھیج دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق بہت سی خواتین اساتذہ اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں۔

اسی ہفتے اسکولوں کے پرنسپلوں اور مذہبی علما کے ایک اجتماع میں کہا گیا تھا اب کہ افغانستان میں خواتین کو اساتذہ کے طور پر کام کرنے یا مساجد میں جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، حالانکہ اس سلسلے میں ابھی تک سرکاری فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

افغانستان میں انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ شہرزاد اکبر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ”اس سے ملک اور افغانستان کے لوگوں کو بہت نقصان پہنچے گا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں نصف آبادی کو تعلیم تک رسائی حاصل نہ ہو، تو آبادی غریب ہی رہے گی اور عالمی امداد پر ہی اسے انحصار کرنا پڑے گا۔”

افغانستان گزشتہ دو برسوں سے بھوک کے بحران سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس موسم سرما میں تقریباً سوا دو کروڑ افغانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا رہے گا۔

طالبان کی فرسودہ دلیل کیا ہے؟

طالبان کے اس فیصلے کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے اور کئی مسلم ممالک نے بھی اسے اسلام کے خلاف بتایا ہے۔ صنعتی جمہوریتوں پر مشتمل گروپ آف سیون نے بھی اس پابندی کو ”انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیا ہے۔

تاہم طالبان اپنے اس بلا جواز فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں۔ طالبان حکومت میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم نے جمعرات کو اس بات پر اصرار کیا کہ خواتین طالبات نے اسلامی ہدایات کو نظر انداز کر دیا تھا اس لیے یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔

انہوں نے سرکاری ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران کہا: ”بدقسمتی سے 14 ماہ گزرنے جانے کے بعد بھی، امارت اسلامیہ کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے خواتین کی تعلیم سے متعلق جو ہدایات جاری کی تھیں، ان ہدایات پر عمل نہیں کیا گیا۔”

ان کا مزید کہنا تھا: ”وہ ایسے کپڑے پہنتی ہیں جیسے کسی شادی میں جا رہی ہوں۔ وہ لڑکیاں جو گھر سے یونیورسٹیوں میں آ رہی تھیں، وہ بھی حجاب سے متعلق ہدایات پر عمل نہیں کر رہی تھیں۔”

ندیم نے یہ بھی کہا کہ سائنس کے بعض مضامین خواتین کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ”انجینیئرنگ، زراعت اور کچھ دوسرے کورسز طالبات کے وقار اور عزت اور افغان ثقافت سے بھی میل نہیں کھاتے ہیں۔”

افغان خواتین کے ساتھ یکجہتی

افغان سیاست دان اور حقوق نسواں کی ماہر شکریہ بارکزئی کہتی ہیں کہ اب اس فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر اقدام کا وقت ہے۔ بارکزئی نے بھی ایک وقت میں کابل میں تعلیم حاصل کی تھی، تاہم 1990 کی دہائی میں طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے وہ اپنی ڈگری مکمل نہیں کر سکی تھیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”طالبان نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ منظم طریقے سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام اور عالمی برادری کو اجتماعی طور پر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے اور خواتین کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔”

سعودی عرب، ترکی اور قطر جیسے اسلامی ممالک، جو خواتین کے حقوق کو پامال کرنے کے لیے معروف ہیں، نے بھی خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی کو ”غیر انسانی” اور ”غیر اسلامی” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں