سمندر میں لاپتہ 180 روہنگیاوں کے زندہ بچنے کی امیدیں ختم

جنیوا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے گزشتہ کئی برسوں میں اب تک کا غالباً یہ سب سے بڑا سانحہ ہے۔ بنگلہ دیش میں رفیوجی کیمپوں کی ابتر حالت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ایک کشتی پر سوار 180روہنگیا مسلمان سمندر میں لاپتہ ہوگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے پیر کے روز کہا کہ نومبر کے اواخر میں ایک کشتی کے ذریعہ بنگلہ دیش سے اپنا سفرشروع کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کا کوئی پتہ نہیں چل پا رہا ہے۔ وہ سمندر میں لاپتہ ہوگئے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کشتی پر سوار تمام 180 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ کشتی اس لائق نہیں تھی کہ اس پر سفر کیا جائے اور دسمبر کے اوائل میں ہی اس میں خرابی پیدا ہونے کی اطلاعات ملنے لگی تھیں۔ بعد میں اس سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ سن 2022 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ حالیہ برسوں میں ان کے ساتھ پیش آنے والے بدترین واقعات میں سب سے بڑا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان بابر بلوچ کا کہنا تھاکہ اس برس پہلے ہی تقریباً 200روہنگیا ہلاک یا لاپتہ ہوچکے ہیں۔ “ہمیں امید ہے کہ 180لاپتہ روہنگیا سلامت ہوں، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔”

سن 2013 اور 2014 کے بعد بدترین واقعہ

یو این ایچ سی آر کے اندازوں کے مطابق سن 2013 میں تقریبا ً 900 روہنگیااور سن 2014 میں 700 سے زائد انڈمان کے سمندر اور خلیج بنگال میں لاپتہ یا ہلاک ہوگئے تھے۔

بلوچ کا کہنا تھا، “رواں برس سن 2013 اور سن 2014 میں ہلاکت اور لاپتہ ہونے کے واقعات کے بعد کا اب تک کا بدترین سال ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے فرار ہونے کی کوششیں ایک بار پھر کووڈ انیس کی وبا کے پہلے جیسے حالات میں پہنچ گئی ہیں۔

انہوں نے کہا، “رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ فرار ہونے کی کوششیں سن 2020جیسی ہوچکی ہیں جب 2400 سے زائد افراد نے خطرناک سمندر کو پارکرنے کی کوشش کی تھی اور 200 سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھے۔

پانچ گنا اضافہ

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کے ذریعہ بنگلہ دیش سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والے روہنگیاوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے اس برس پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔

بلوچ نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ 180افراد پر مشتمل کشتی کہاں لاپتہ ہوئی اور یہ کہ یہ کس ملک کی طرف جارہی تھی۔

سن 2012 میں میانمار سے بھاگ کر ملائشیا پہنچنے والے 38 سالہ سعیدالرحمان کا کہنا تھا ان کی بیوی،17اور 13برس کی دو بیٹے اور 12برس کی ایک بیٹی لاپتہ ہونے والوں میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا، “میرا خاندان سن 2017 میں اپنی زندگی بچانے کے لیے بنگلہ دیش آیا تھا، لیکن اتنے برسوں کے دوران ان کی زندگی عذاب بن گئی۔ روہنگیاوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، خواہ سمندر میں مریں یا دھرتی پر، کسی بھی جگہ۔”

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ کے لیے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزین مختلف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کیمپوں کی حالت انتہائی خراب بتائی جاتی ہے۔

بودھ اکثریتی ملک میانمار بیشتر روہنگیاوں کو شہریت دینے سے انکاری ہے وہ انہیں جنوب ایشیا کا غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں