طالبان خواتین کے خلاف پابندیاں ختم کریں، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین امدادی کارکنوں کی بڑی اہمیت اور ضرورت ہے۔ این جی او کے ایک سربراہ کا کہنا ہے کہ بعض طالبان رہنما بھی خواتین پر پابندیوں کو نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیشتر ممالک نے ایک بار پھر سے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی گئی پابندیوں کو فوری طور پر ختم کر دیں۔ اس میں خواتین امدادی کارکنوں پر عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کے اقدام بھی شامل ہیں۔

جمعے کے روز سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد 11 اراکین کی نمائندگی کرتے ہوئے جاپانی سفیر اشیکانے کیمی ہیرو کہا، ’’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اپنے تمام جابرانہ اقدامات کو فوری طور پر واپس لیں‘‘۔

ان ممالک نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کریں، اور سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور عوامی جگہوں سمیت افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں ان کی مکمل، مساوی اور بامعنی شرکت اور شمولیت کو یقینی بنائیں‘‘۔

البتہ، روس، چین، گھانا اور موزمبیق جیسے سلامتی کونسل کے اراکین نے اس بیان کی حمایت نہیں کی۔

متحدہ عرب امارات کی سفیر لانا نصیبیح نے جاپان کے ساتھ مل کر اس اجلاس کا مطالبہ کیا تھا۔ اجلاس کے بعد انہوں نے کہا کہ ’اہم نکات‘ یہ تھے کہ افغانستان میں انسانی بنیادوں پر کام ضروری ہے اور سلامتی کونسل طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے پرعزم بھی ہے تاکہ ’’زمینی صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد کرنے کی کوششیں کی جا سکیں‘‘۔

انسانی حقوق کے گروپ خواتین کے بغیر کام کرنے سے قاصر

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی روزا اوتن بائیفا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ طالبان کی حالیہ پابندیاں ان کی ماضی کی ان یقین دہانیوں کے بالکل برعکس ہیں کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کا احترام کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ فی الوقت اس کے جو سب سے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی وجہ سے سردیوں کے دوران انسانی امداد کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے۔

نارویجن ریفیوجی کونسل، کیئر، ورلڈ ویژن اور اسلامک ریلیف سمیت کئی بین الاقوامی امدادی اداروں نے 24 دسمبر سے افغانستان میں ان وجوہات کے سبب اپنا کام معطل کر رکھا ہے کہ وہ اپنی ٹیموں میں خواتین کے بغیر مقامی آبادی کو مؤثر طریقے سے خدمات فراہم نہیں کر سکتے۔ تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی ایجنسیاں افغانستان میں اپنا کام کرتی رہیں گی۔

پناہ گزینوں سے متعلق ناروے کی کونسل کے سربراہ جان ایجلینڈ نے اسی ہفتے افغانستان کا دورہ کیا تھا، تاکہ خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے کسی طرح سے طالبان کو آمادہ کیا جا سکے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’میں نے کابل میں متعدد طالبان رہنماؤں، متعدد وزراء، کئی مذہبی اسکالرز اور طالبان کی سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ حیران کن بات تو یہ ہے ان میں سے کئی ایک میری اس بات سے متفق ہیں کہ امدادی تنظیم کے طور ہمارے لیے اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ ہی کام کرنا ممکن ہو سکے گا‘‘۔

جان ایجلینڈ نے تاہم کہا کہ اس مسئلے پر فی الوقت سخت گیر طالبان کو “برتری حاصل ہے” تاہم کچھ طالبان رہنما خواتین پر عائد پابندیوں سے ہونے والے نقصانات کو بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ خواتین پر عائد تعلیم کی پابندی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوگی‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں