خیبر پختونخوا: دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے تھرمل آلات سے لیس اسلحے کی خریداری

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور سیکیورٹی اہلکاروں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کے پیشِ نظر تھرمل امیجنگ اسلحہ خریدنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد جلد ہی 660 جدید ترین رائفلیں پولیس کو فراہم کی جائیں گی۔

خیبر پختونخوا کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) معظم جاہ انصاری نے چند روز قبل صحافیوں سے گفتگو کے دوران تھرمل امیجنگ رائفلز کے حوالے سے بتایا تھا کہ حکومت یہ اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے سے موجود 40 تھرمل امیجنگ رائفلز میں 20 ڈیرہ اسماعیل خان اور 20 بنوں ریجن کے حوالے کی جا چکی ہیں جب کہ اب مزید 660 رائفلز کے خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت اور ملحقہ علاقوں میں مبینہ دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ان حملوں میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ بنوں کے انسدادِ دہشت گردی پولیس تھانے پر بھی حملہ شامل ہے جس میں ایک درجن سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے جب کہ 24 مبینہ عسکریت پسندنشانہ بنے تھے۔

پولیس حکام کے مطابق 660 رائفلز کی خریداری پر لگ بھگ 37 کروڑ روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

پولیس کے ذرائع سے وائس آف امریکہ کو ملنے والی معلومات کے مطابق ایک رائفل کی قیمت لگ بھگ 12 لاکھ روپے تک ہے اور جب اس میں رات کے وقت دیکھنے سمیت دیگر آلات نصب ہوں گے تو اس کی قیمت 15 لاکھ روپے تک ہو جائے گی۔

خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور تجزیہ کار سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس اسلحے کو نائٹ وژن یعنی رات میں دیکھنے کے قابل بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی اس کی خریداری کی جا چکی ہے جب کہ اس وقت یہ اسلحہ انسدادِ دہشت گردی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔

سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جب کہ اس کے ذریعے دشمن کو رات کے وقت نشانہ بنانے کے لیے جسم کی حرارت کی مدد سے نشان دہی کی جا تی ہے۔

خیبر پختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی تھرمل امیجنگ اسلحے کے استعمال کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ ماضیٴ قریب میں یہ اسلحہ سرحد پار افغانستان میں تعینات نیٹو افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا ہے ۔

مبصرین کے مطابق افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف اگست 2021 تک جاری جنگ کے دوران یہ جدید اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگا ہے اور اب یہ پاکستان میں بھی دہشت گردی میں استعمال ہو رہا ہے۔

تین روز قبل پشاور کے نواحی علاقے سربند میں دہشت گردوں نے پولیس حکام کے بقول اسی تھرمل امیجنگ اسلحےسے اعلیٰ پولیس افسر سمیت ان کے دو محافظوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا تھا۔اس واقعے کے اگلے روز پولیس حکام نے حملے میں ملوث دو مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں