امریکہ، لندن، کینیڈا سمیت کئی ممالک میں طالبان مخالف مظاہرے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے لے کر لندن، ٹورنٹو اور دنیا کے کئی دیگر شہروں میں افغان کارکنان نے طالبان کی خواتین مخالف پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

افغان تارکین وطن نے ان مظاہروں میں طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔

اگرچہ ان مظاہروں میں کارکنان کی تعداد کم تھی۔ تاہم افغانستان میں خواتین پر طالبان کی بڑھتی پابندیوں کے خلاف مظاہروں کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔

چودہ جنوری کو 100 سے کم مظاہرین واشنگٹن ڈی سی کے فارراگٹ اسکوائر پارک میں جمع ہوئے اور طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے یونیورسٹیز اور کام پر جانے پر عائد پابندی کے خلاف نعرے بازی کی۔ اسی روز لاس اینجلس میں شدید بارش کے باوجود مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے بھی احتجاج کیا۔

لاس اینجلس کے ٘مظاہرے میں شریک ایک افغان امریکی کمیونٹی آرگنائزر آرش عزیز زادہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ”ہم نے طالبان کی طرف سے پیدا کردہ صنفی نسلی امتیاز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔”

ہم افغان خواتین کی آواز بننا چاہتے ہیں’

انسانی حقوق کے گروپس نے طالبان حکام پر الزام عائد کیا ہے کہ کابل کے موجودہ حکمرانوں نے احتجاج پر پابندی لگا رکھی ہے ، کارکنوں کو حراست میں لیا ہوا ہے اور ان پر تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی پر قدغن لگا رکھی ہے۔

البتہ طالبان ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ”انہوں نے ملک کو امریکی تسلط سے آزاد کرایا ہے۔”

لیکن افغانستان سے باہرمظاہرین کا کہنا ہے کہ ”وہ افغان خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جن کے حقوق طالبان کی غیر جمہوری حکومت میں کچلے جا رہے ہیں۔”

ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک محقق اور سابق افغان سفارت کار اسیلا وردک کے بقول ”ہم افغان خواتین کی آواز بننا چاہتے ہیں، ہم دنیا کے لیے ان کا پل بننا چاہتے ہیں۔”

ان مظاہروں کے پُر اثر ہونے کے حوالے سے تھنک ٹینک کارنیگی انڈومینٹ سے منسلک گلوبل پروٹسٹ ٹریکر تھامس کیروتھرز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک سے باہر حکومت مخالف مظاہروں کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور جابر حکومتیں عموماً ایسے واقعات کی خبروں کو دبانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی اور یورپی حکام نے اکثر افغان خواتین کے حقوق کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور طالبان رہنماؤں اور اداروں پر سفری اور اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو طالبان کی جانب سے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے روکنے پربامعنی کارروائی کرنی چاہیے۔

سابق افغان سفارت کار اسیلا وردک کہتے ہیں کہ افغان خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے صرف بیانات جاری کرنا کافی نہیں ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کو افغان خواتین کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں وہ طالبان سے براہ راست رابطے اور احتساب کا مطالبہ کرسکیں۔

لاس اینجلس میں ایک سرگرم کارکن عزیز زادہ کہتے ہیں کہ طالبان کی سمجھی جانے والی بدگمانی کا ایک بامعنی ردعمل امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے افغان باشندوں کے لیے مزید پناہ اور تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہونا چاہیے۔

ان کے بقول”اگر افغان لڑکیاں افغانستان میں نہیں سیکھ سکتیں تو انہیں امریکہ یا کسی اور جگہ ایسا کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔”

واضح رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سےخواتین رہنما اور کارکن سمیت ڈیڑھ لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ملک سے نکالا جا چکا ہے اور انہیں امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک میں پناہ دی گئی ہے۔

افغانستان سے نکلنے والے بہت سے لوگوں نے طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں تبدیلی کی اعلیٰ سطح پر وکالت کی ہے۔

ملک چھوڑنے والے کچھ افغان کارکنوں نے اعلیٰ یونیورسٹیوں میں باوقار ایوارڈز اور فیلوشپس حاصل کی ہیں جس سے انہیں ایسے پلیٹ فارمز ملے ہیں جہاں سے وہ نامور میڈیا آؤٹ لیٹس کے لیے لکھ سکتے ہیں اور اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں۔

ان کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ مغربی ممالک میں سرگرم کارکنوں کو افغانستان کے اندر خواتین کے مقابلے میں بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں کابل کے ایک تجزیہ کار عبید اللہ باہیر کہتے ہیں کہ افغانستان سے باہر کی جانے والی کوششوں کو ملک کے اندر موجود افراد کی سرگرمیوں کے لیے باعث تکمیل بننا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں بیانیے کو کسی کا یرغمال نہیں بننے دینا چاہیے اور نہ ہی غیر حقیقی حل پیش کیے جانے چاہیں۔

جرمنی میں مقیم سابق افغان اہلکار ظریفہ غفاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ”مجھے یقین ہے کہ مظاہروں کا صورتِ حال پر اثر پڑتا ہے۔”

ادھر طالبان حکام نے بیرون ملک افغان مظاہروں کو بڑی حد تک نظر انداز کیا ہے یا مظاہرین کو مغربی کٹھ پتلی قرار دیا ہے۔ تاہم افغانستان میں تقریباً تمام افغان شہریوں نے اپنی زندگیوں کو مصائب زدہ قرار دیا ہے ۔

تحقیقی ادارے پیو کے ایک حالیہ سروے کے مطابق افغان شہریوں کی اکثریت نے کہا ہے کہ طالبان کے زیر تسلط خواتین کو توہین کا سامنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں