برکینا فاسو کا فرانسیسی فوجیوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم

واگادوگو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی) مغربی افریقی ملک برکینا فاسو نے فرانس سے کہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو ایک ماہ کے اندر یہاں سے نکال لے۔ اس سے قبل مالی نے بھی فرانسیسی فوجیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا تھا ، یہ انخلا پانچ ماہ قبل مکمل ہو چکا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدر ایمانوئل ماکروں نے اتوار کے روز کہا کہ وہ فرانسیسی فوج کو نکالنے کے حوالے سے افریقی ملک کی فوجی حکومت کی جانب سے وضاحت کے منتظر ہیں۔

اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس سفارتی خط کی کاپی موجود ہے جس میں برکینا فاسو نے فرانسیسی فوج کو ایک ماہ کے اندر ملک چھوڑ دینے کے لیے کہا ہے۔

برکینا فاسو کے قومی نشریاتی ادارے آر ٹی بی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے ہفتے کے روز کہا تھا کہ فوجی حکومت نے بدھ کے روز ملک میں فرانس کی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ماکروں کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے میڈیا میں جو خبریں آئی ہیں ان میں ”کافی کنفیوژن‘‘ ہے اور برکینا فاسو کے فوجی رہنما ابراہیم تراورے کوعوامی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم تراورے کی جانب سے وضاحت کے منتظر ہیں۔‘‘

برکینا فاسو کی وزارت خارجہ کی طر ف سے بدھ کے روز جاری کردہ خط میں مبینہ طور پر سن 2018 کے اس معاہدے کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے جس کے تحت فرانسیسی افواج وہاں موجود ہیں۔ اس میں فرانسیسی فوج کو ملک چھوڑنے کے لیے ایک ماہ کی مدت طے کی گئی ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا فرانس نے خط موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔

فرانسیسی صدر کے دفتر کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے”اعلیٰ ترین سطح‘‘ پر برکینافاسو کے موقف کی تصدیق کا انتظار کر رہے ہیں۔

اس دوران برکینا فاسو کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ایک ذرائع کے حوالے سے مذکورہ خط کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع نے تاہم وضاحت کی کہ ”یہ فرانس سے تعلقات منقطع کرنے کی بات نہیں ہے۔ نوٹیفیکیشن کا تعلق صرف فوجی تعاون کے معاہدوں سے ہے۔‘‘

ماکروں کا مزید کہنا تھا کہ یہ پیش رفت ممکنہ طور پر روس کی مداخلت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ان کے بقول،”ہمیں کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘

فرانس کے خلاف ناراضگی

سابق فرانسیسی نوآبادیات برکینا فاسو میں فرانس مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔ ستمبر میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد تراورے نے دیگر ملکوں، بالخصوص روس کے ساتھ مل کرکام کرنے کے حوالے سے زیادہ کھل کر بولنا شروع کردیا ہے۔

جہادی عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کے لیے اس وقت برکینا فاسو میں 400 فرانسیسی خصوصی فوجی تعینات ہیں تاہم حالیہ مہینوں کے دوران فرانس اور فوجی جنتا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

ستمبر میں فوجی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے ملک میں فرانس کے خلاف کئی مظاہرے ہوئے ہیں۔ مظاہرین فرانسیسی سفیر اور فرانسیسی فوج کو ملک سے واپس بھیجنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔

اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اپنے پڑوسی مالی کی طرح ہی برکینا فاسو بھی روس کی جانب تیزی سے متوجہ ہو رہا ہے۔

برکینا فاسو کے وزیر اعظم کلیم ڈی ٹمبیلا نے گزشتہ ہفتے روسی سفیر کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا تھا،”موجودہ حالات میں روس ہمارے لیے ایک مناسب انتخاب ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ اس کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مستحکم بنائیں۔‘‘

قبل ازیں مالی نے بھی فرانس سے اپنے 2400 فوجیوں کو واپس نکال لینے کا کہا تھا۔ یہ انخلا پانچ ماہ قبل مکمل ہوچکا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ برکینا فاسوسے اپنی افواج کو نکالنے کے بعد فرانس انہیں پڑوسی ملک نائیجر میں تعینات کرسکتا ہے، جہاں پہلے سے ہی اس کے 2000 فوجی موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں