جرمنی کا یوکرین کو ‘لیوپارڈ ٹو ٹینک’ فراہم کرنے کا فیصلہ

برلن (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) اتحاديوں کے ‘بے انتہا دباؤ‘ کے تناظر میں برلن حکومت نے امریکہ سے قریبی مشاورت کے بعد یوکرین کو ‘لیوپارڈ ٹو‘ ٹینک فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ماسکو حکومت نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

جرمنی نے یوکرین کو ‘لیوپارڈ ٹو‘ ٹینک فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ساتھ ہی دیگر ملکوں کو بھی یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ہہ جرمن ساختہ ٹینک یوکرین فراہم کر سکتے ہیں۔ حکومت کے ترجمان اسٹیفن ہیبے شٹرائٹ نے بدھ پچیس جنوری کو اس بارے میں اعلان کیا۔ ابتدائی طور پر 14 ‘یيوپارڈ ٹو‘ ٹینک فراہم کیے جائیں گے۔ جرمن حکومت یوکرین کو دیگر اسلحہ اور فوجی ساز و سامان بھی فراہم کرے گی اور یوکرینی فوجیوں کی جرمنی میں تربیت بھی عنقریب شروع ہو جائے گی۔

جرمنی پر دیگر مغربی اتحادیوں کی جانب سے ایسا کرنے کے لیے کافی دباؤ ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا ہے کہ جرمنی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور فیصلہ اسی مشاورت کے نتیجے میں کیا گیاہے۔ چانسلر شولس پہلے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ اتحادیوں بالخصوص امریکہ کے ساتھ مکالمت و مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ برلن حکومت چاہتی ہے کہ امريکہ بھی اپنے ٹینک فراہم کرنے کا اعلان کرے تاکہ روسی رد عمل کا تنہا جرمنی کو سامنا نہ کرنا پڑے۔

روس کا سخت رد عمل

ماسکو حکومت نے اس فیصلے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، ”مغربی ٹینک یوکرین میں جل کر راکھ بن جائیں گے‘‘۔ کریملن کے ترجمان نے امریکہ اور جرمنی کے اس فیصلے کو ”ايک تباہ کن منصوبہ‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے بقول دفاعی ماہرین اس فیصلے کے تکنیکی امور جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کس قدر ناقص ہے۔

دیمیتری پیسکوو کا مزید کہنا تھا کہ مغربی ممالک غلط اندازہ لگا رہے ہیں کہ ٹینکوں کی فراہمی سے یوکرینی فوج کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا، ”يہ ٹینک بھی بقیہ ٹینکوں کی طرح جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ فرق یہ ہے کہ یہ کافی مہنگے ہیں اور اس کا نقصان یورپی ٹییکس دہندگان کو اٹھانا پڑے گا۔‘‘

داخلی سطح پر فیصلے کی پذیرائی

تین جماعتوں پر مشتمل مخلوط جرمن حکومت میں داخلی سطح پر اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ چانسلر شولس بدھ کو پارلیمان سے خطاب بھی کر رہے ہیں، جس میں وہ اس بارے میں مزيد آگاہ کریں گے۔ گرین پارٹی کی قانون ساز کیٹرن گیورنگ ایکارٹ نے کہا، ”لیوپارڈ آزاد ہو گیا۔‘‘

فری ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن ‘مری ایگنس اسٹرییک زمرمان، جو کہ دفاعی امور پر پارلیمانی کميٹی کی سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہا ہے خبر ”سکون کے احساس‘‘ کی مانند ہے۔

دوسری جانب دو چھوٹی جماعتوں نے اس حکومتی فیصلے پر تنقید بھی کی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ‘آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ نے اس فیصلے کو ”خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار ديا۔

بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی نے بھی کہا ہے کہ اس سے یوکرینی جنگ میں شدت آ سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں