سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ایران ہے، آذربائیجان کا الزام

باکو + تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز) آذربائیجان نے تہران میں اپنے سفارت خانے کو خالی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ حملے کے پیچھے ایرانی حکومت کا ہاتھ ہے۔ سفارت خانے پر حملے کے نتیجے میں سکیورٹی انچارج ہلاک اور دو محافظ زخمی ہو گئے۔

آذربائیجان نے جمعے کے روز تہران میں اپنے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کا الزام ایرانی حکومت پر عائد کیا ہے۔ آذربائیجان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایزان حاجی زادہ کا مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”حملے کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایرانی میڈیا میں حالیہ آذربائیجان مخالف مہم نے ”اس حملے کی حوصلہ افزائی کی ہے‘‘۔ بعدازاں انہوں نے ترک ٹیلی وژن ٹی آر ٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ایران سے تمام سفارتی عملے کو نکالا جا رہا ہے‘‘۔

حملہ کب اور کیسے ہوا؟

ايرانی دارالحکومت ميں ايک حملہ آور نے ستائیس جنوری بروز جمعہ آذربائيجان کے سفارت خانے ميں داخل ہو کر فائرنگ کی، جس سے سکيورٹی انچارج موقع پر ہی ہلاک اور دو محافظ زخمی ہو گئے۔ تہران کے پوليس چيف حسين رحيمی کے مطابق يہ واردات ”ذاتی اور خاندانی دشمنی‘‘ کی بنياد پر کی گئی۔ تہران حکومت کے مطابق حملہ آور کو گرفتار کر ليا گيا ہے۔

حسين رحيمی کے مطابق حملہ آور نے آذربائیجان کی ایک خاتون سے شادی کر رکھی ہے اور اس کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ آذری حکام نے اس کی بیوی کو گزشتہ نو ماہ سے اپنے سفارت خانے میں رکھا ہوا ہے۔

دریں اثناء ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی ‘ذاتی عناد‘ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

آذربائیجان کے صدر کی طرف سے احتجاج

آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے سفارت خانے پر حملہ ایک ‘دہشت گردانہ کارروائی‘ ہے۔ انہوں نے حملہ آور کو ‘دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے فوری سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا ہے، ”میں دہشت گردی کی اس کارروائی کی شدید مذمت کرتا ہوں‘‘۔ دوسری جانب ترکی نے بھی اس کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تہران حکومت پر تنقید کی ہے۔

آذربائیجان اور ایران کے مابین کشیدہ ہوتے تعلقات

يہ پيش رفت ايک ايسے موقع پر ہوئی ہے، جب ايران اور آذربائيجان کے باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ آذربائیجان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”اس سے قبل بھی ایران میں ہمارے سفارتی اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ ایسے حالات کو روکنے اور اپنے سفارتی اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تواتر کے ساتھ ایران سے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں‘‘۔

ایران اور اس کے شمالی پڑوسی آذربائیجان کے مابین کشیدہ ہوتے تعلقات کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایران میں آذری سب سے بڑی اقلیت ہیں اور باکو حکومت سرحدی علاقوں میں اسی آذری اقلیت کا ساتھ دیتی ہے۔ آذری اقلیت تہران حکومت کی پالیسیوں سے اکثر ناراض رہتی ہے۔

آذربائیجان ترکی کا قریبی حلیف بھی ہے اور تہران حکومت کے انقرہ کے ساتھ بھی متعدد تنازعات ہیں۔ علاوہ ازیں باکو دفاعی ساز و سامان اور بالخصوص ڈرونز کے لیے اسرائیلی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ حال ہی میں ایرانی حکام نے کہا تھا کہ انہیں آذربائیجان میں اسرائیلی موجودگی کے حوالے سے تشویش ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں