پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکا، 50 افراد ہلاک،147 زخمی

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش حملے میں 32 افراد ہلاک اور کم از کم 147 زخمی ہوگئے ہیں۔

سیکیورٹی حکام کے مطابق خود کش حملہ آور مسجد میں نماز کے دوران پہلی صف میں موجود تھا جس نے جماعت شروع ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے جب کہ چھت کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا۔

حکام کے مطابق پولیس لائنز شہر کا اہم ترین علاقہ ہے جہاں کئی اہم سرکاری عمارتوں کے علاوہ عدالتیں بھی ہیں۔

مسجد میں دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں پہنچانا شروع کر دیا۔

دھماکے کے فوری بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور قریبی شاہراہوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیاگیا تاکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے میں دشواری نہ ہو۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخمیوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس کی انتظامیہ نے مقامی میڈیا کے ذریعے شہریوں سے خون کے عطیات دینے کی اپیل کی۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق سو سے زائد زخمیوں کو اسپتال لایا گیاہے جن میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے۔

ترجمان کے مطابق زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

سیکیورٹی اہلکاروں نے خود کش حملے کے فوری بعد علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ خود کش حملہ آور اور دھماکے کے لیے استعمال کیے جانے والے بارودی مواد سے متعلق فوری طو رپر معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

ملبے تلے لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ

ریسکیو سروس 1122 کے ترجمان بلال فیضی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد ملبے کے نیچے 10 سے 15 افراد کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔

مقامی میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی چھتیں کاٹ کر ملبے کے نیچے موجود افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلی ترجیح انسانی جان بچانا ہے۔

ان کے مطابق ملبے کے نیچے موجود پانچ سے چھ زخمی افراد کو ابتدائی امداد اسی مقام پر دی گئی جب کہ ان کے ملبے سے نکالنے کی کارروائی شروع کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے بھاری مشنیری بھی استعمال کی جا رہی ہے البتہ احتیاط کے سبب کام کی رفتار کو سست رکھا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو 1122 کے پاس ایسے کیمرے موجود ہیں جن کی مدد سے ملبے کے نیچے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ کوئی زخمی نظر آ جائے تو اسی کیمرے کی مدد سے اس سے بات کرنا بھی ممکن ہے۔

ان کے مطابق آڈیو سینسرز کی مدد سے ملبے کے نیچے آوازیں سننے کی بھی کوشش کی جاتی ہے جب کہ اس سے دل کی دھڑکن بھی سنی جا سکتی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ریسکیو آپریشن جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

عینی شاہدوں نے کیا دیکھا

’’دھماکہ ہوتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا اور جب دھواں اور چھٹنا شروع ہوا تو دیکھا کہ مسجد کی چھت گر چکی تھی‘‘۔ یہ کہنا ہے پشاور پولیس کے اہل کار شاہد علی کا جو دھماکے کے وقت پولیس لائنز مسجد میں موجود تھے۔

پشاور میں ہونےو الے دھماکے کے بعد ابتدائی طور پر حکام اس دھماکے نوعیت کے بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کررہے تھے لیکن جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ وہاں موجود کئی عینی شاہدین سے بات ہونے پر معلوم ہوا کہ حملہ آور جسم سے بارودی مواد باندھے مسجد کے اندرونی حال میں نمازیوں کی صف میں شامل ہوگیا تھا۔

پشاور پولیس کے اہل کار شاہد علی نے وہاں موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ جب وہ وضو مکمل کرنے والے تھے تو اسی دوران خطیب نے با جماعت نماز کے لیے ’اللہ اکبر‘ کہہ کر نیت باندھ لی تھی ۔ وہ پہلی رکعت میں کچھ دیر سے مسجد کے بیرونی برآمدے کی دوسری صف میں پہنچ گئے اور جب نماز شروع کی تو انہیں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ سنائی دیا جس کے فوری بعد زور دار دھماکہ ہوگیااور دھماکے کے بعد مسجد میں مکمل طور پر اندھیرا چھا گیا ۔

شاہد علی کے بقول، نماز کے دوران نعرہ لگانے والا ہی خود کش حملہ آور تھا ۔ چند منٹ بعد جب اندھیرا اور دھواں چھٹنا شروع ہوا تو انہوں نے دیکھا مسجد کی اندرونی ہال کی چھت مکمل طور پر زمین بوس ہوچکی تھی اور تمام نمازی ملبے تلے دب چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی برآمدے میں بھی درجنوں افراد موجود تھے اور ان میں سے بیش تر زخمی حالت میں کراہ رہے تھے ۔

دھماکے کے فورا بعد پولیس لائن میں موجود دیگر اہل کار اور ملازمین فوری طور پر پہنچ کر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ۔

پولیس لائنز میں ڈیوٹی پر موجود ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ وہ مسجد کے اندر نماز کی ادائیگی کے لیے داخل ہورہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ ابتداء میں تو انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد انہیں اندازہ ہوا کہ دھماکہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں مسجد کا منبر والا حصہ مکمل طور پر گر پڑا جس کے ملبے تلے 100 سے زائد افراد دب گئے۔

جائے وقوعہ پر پہنچنے والے سی سی پی او پشاور اعجاز خان نےبھی اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکے باعث گرنے والی مسجد کی چھت کے نیچے کئی اہل کار دبے ہوئے ہیں۔ ریسکیو حکام ملبے تلے دبے ہوئے زخمیوں کو نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

پولیس لائنز میں موجود اہل کاروں کے علاوہ یہاں اپنے عزیز و اقارب کے حال احوال معلوم کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ اس دوران جائے وقوعہ پر پہنچنے والے بہت سے افراد اندر داخل ہونے کی کوشش میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ دست و گریبان بھی ہوگئے۔

پیر کے دن ہفتہ وار چھٹی کے بعد پہلا دن ہونے کی وجہ سے پولیس لائنز میں معمول سے زیادہ آمد و رفت ہوتی ہے۔خود کش دھماکے کے بعد پولیس لائنز کے اندر موجود مرد اور خواتین پولیس اہل کاروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

دھماکے کے فوراً بعد پولیس لائنز اور سول سیکریٹریٹ کے تمام داخلی راستے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ شہر کے تین بڑے اسپتالوں میں ہنگامی حالات نافذ کردیے گئے ہیں۔ جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے حکام اور اسپتال انتظامیہ نے زخمیوں کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے کی اپیل کی ہے۔

ریڈزون

پولیس لائن کے علاقہ میں پولیس افسران و انتظامیہ کے دفاتر اور پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں موجود ہوتی ہیں۔

پولیس لائن شہر کی اہم شاہراہ خیبر روڈ پر واقعہ ہے اور اس سے ملحقہ شاہراہ سے ایک راستہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی جانب جاتا ہے جبکہ اس کے دائیں جانب سول سیکریٹریٹ کی عمارت موجود ہے۔

پولیس لائن کے عقبی جانب پشاور کی سینٹرل جیل بھی واقع ہے۔ پولیس لائن کا علاقہ ایک ہائی سکیورٹی زون قرار دیا جاتا ہے اور یہاں آنے اور جانے والے افراد کی تلاشی لی جاتی ہے اور مختلف جگہوں پر پولیس نے ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے۔

خیبر روڈ پر کچھ آگے جائیں تو وہاں جوڈیشل کمپلیکس اور کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت بھی موجود ہے جبکہ اس کے سامنے کور کمانڈر ہاؤس اور سرینا ہوٹل کی عمارت موجود ہے۔

گورنر کا مزید اموات کے اندیشے کا اظہار

خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں 28 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ڈیڑھ سو کے قریب افراد زخمی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسجد کے ملبے میں لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کو نکالنے کے لے امدادی کام جاری ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعے کی حکومت کسی کو بھی اجازت نہیں دے سکتی۔

خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے: سی سی پی او

پشاور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی و) محمد اعجاز خان کا کہنا ہے کہ مسجد میں خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔ صورتِ حال کلیئر ہونے پر دھماکے کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔ اس دھماکے میں 27 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 140 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

صوبے کے گورنر حاجی غلام علی کے ہمراہ دھماکے کے مقام کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امدادی کاموں کے بعد دھماکے کی نوعیت کا اندازہ ہوگا۔ نماز کے وقت مسجد میں لگ بھگ 400 افراد ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز میں دھماکہ ہو رہا ہے تو اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی سیکیورٹی لیپس ہوگا اسی لیے دھماکہ ہوا ہے۔

دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مسجد کاپرانا ہال گر چکا ہے جب کہ اس کی نئی عمارت کو نقصان پہنچا ہے۔

انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں’

پاکستان کے وزیرِ خارجہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی اور عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے عندیہ دیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان ہی دہشت گردوں کا علاج ہے، اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات جاری

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی ادارے خیبر پختونخوا کی حکومت کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔

انہوں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ دہشت گردی کو شکست دیں گے اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

سیاسی رہنماوں کی مذمت

سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے پشاور خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ خفیہ اطلاعات جمع کرنے کو بہتر بنایا جائے اور پولیس کو بہتر انداز سے لیس کیا جائے تاکہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹ سکے۔

سیاسی جماعت نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے سربراہ اور رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ نے خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک جنگ جاری ہے اور یہاں کے مکین ہلاک ہو رہے ہیں۔

پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے’

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ دو چار ہفتے قبل بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں بھی پولیس کے اہلکار ہی موجود تھے۔

نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نیکٹا کو ایک بار پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے جس طرح 10 سال قبل دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔

ان کے مطابق مساجد میں دہشت گردی سے مذہب کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات اسلام اور اسلامی دنیا کے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

خواجہ آصف کے مطابق خیبر پختونخوا میں امن بحال کیا جائے گا۔

پشاور خودکش حملے کے بعد اسلام آباد کی سیکیورٹی سخت

پشاور میں دھماکے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے سیکیورٹی ہائی الرٹ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

پولیس نے دارالحکومت کے تمام داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ بڑھا دی ہے جب کہ سیف سٹی کیمروں کے ذریعے بھی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اہم چوکیوں اور عمارتوں پر اسنائپرز تعینات کر دیے ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے شہریوں سے دورانِ سفر شناختی دستاویزات ہمراہ رکھنے جب کہ پولیس کے ساتھ تعاون کی اپیل کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں